معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
علوم اور معارفِ وہبیہ کے حصول کا طریقہ مولانا عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان علوم اور مواہبِ ربّانیہ کی تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ قال کو چھوڑ دو، صاحبِ حال بن جاؤ، یعنی اوّلاً غیر مقصود امور سے دل خالی کرو۔ بقول حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ؎ ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی حضرت مرشدی مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس شعر سے بہت خوش ہوئے تھے اور فرمایا: خواجہ صاحب! اگر میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا تو اس شعر پر آپ کو انعام میں دے دیتا۔ حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ کا اس درجہ انبساط حضرت کے باطنی مقام کی غمازی اور مخبری کرتا ہے، جو اس شعر میں مذکور ہے،یعنی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا یہی حال مقام بن چکا تھا۔ دوسرے مصرع میں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ترکِ قال اور حصولِ حال کا بیان فرمایا ہے، یعنی صاحبِ قال اگر صاحبِ حال بننا چاہے تو کسی مردِ کامل کے سامنے پامال ہوجائے۔’’پیش مردِ کاملے پامال شو‘‘تاکہ وہ مردِ کامل تمہارے تمام ناز و پندار اور خود بینی کی رگوں کو پامال کردے، جس سے وہ تمام حجاباتِ ظلمانیہ جو قلب میں حق تعالیٰ شانہٗ کے نفحاتِ کرم اور فیوضِ غیبیہ کے مشاہدے سے مانع ہورہے تھے مرفوع ہوجائیں گے اور قلب کو دریچۂ باطنی سے ایسے ایسے علوم اور معارف عطا ہوں گے جو تم کو اللہ تک پہنچادیں گے۔ حضرت شاہ فضل رحمٰن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر شاہ محمد آفاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ اے شہِ آفاق شیریں داستاں باز گو از من نشانِ بے نشاں