معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
سامنے میرا بھی تذکرہ کرنا، لیکن شیطان نے اس کو اس بات کی نقل سے بُھلادیا اور آپ سات برس تک قید میں رہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص بندوں کے درجات کو اسی طرح بلند فرماتے ہیں۔ چناں چہ حضرت آدم علیہ السّلام خلیفۃ اللہ فی الارض علمِ الٰہی میں تو پہلے ہی سے تھے، لیکن وہ خلافت ملے گی کب، جب رلائیں گے تب، رلاکر سر پر خلافت کا تاج رکھا، صاحبِ سبحۃ المرجاننے اپنی کتاب’’سبحۃ المرجان‘‘ میں تحریر کیا ہے:حضرت آدم کی گریہ و زاری کہ حضرت آدم علیہ السلام اپنی لغزش پر اس قدر روئے ہیں کہ آپ کے آنسوؤں سے چھوٹے چھوٹے چشمے پیدا ہوگئےاور اسی پانی سے حق تعالیٰ نے خوشبودار پھول پیدا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ندامت اور گریہ و زاری سے آپ کی عبدیت کو پختہ فرماکر اس درجے پر پہنچادیا جس درجۂ عبدیت پر کہ تاجِ خلافت عطا ہونا علمِ الٰہی میں تجویز ہوا تھا۔قصّۂ حضرت یوسف حضرت یوسف علیہ السّلام نے اس قیدی سے اپنی خلاصی کے متعلق جو بات کہی تھی اس پر حق تعالیٰ نے آپ کو ادب سکھلایا کہ یہ استعانت اگرچہ ناجائز نہیں، لیکن آپ کے شایانِ شان نہ تھی۔ آپ کی شانِ نبوّت کا مقتضیٰ یہ تھا کہ فاضل کو چھوڑ کر افضل کو اختیار فرماتے، یعنی صرف مجھ سے درخواست کرتے، چناں چہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس شانِ عتاب کو حق تعالیٰ شانہ ٗکی طرف سے بایں انداز بیان فرماتے ہیں ؎ کہ چہ تقصیر آمد از خورشید داد تا تو چوں خفاش افتی در سواد کون سی کمی ہوئی تھی خورشید عطا کی طرف سے جس سے تم خفاش کی طرح ظلمتِ شب میں پڑجاؤ۔