معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہے، اور یہ حکمت عینِ رحمت ہے، اللہ والوں کو اللہ تعالیٰ ہر حال میں خوش رکھتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتے ہیں تو ان کی رضا کا پر تو اس مقبول بندے کے قلب پر پڑتا ہے، جس کے فیض سے یہ بھی ہر وقت خوش رہتاہے۔مقبول بندوں کو انتقال کے وقت حق تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور جب اس مقبول بندے کا چل چلاؤ کا وقت ہوتا ہے تو ارشاد فرماتے ہیں: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ؎ ’’اے اطمینان والی رُوح!‘‘سبحان اللہ! اس خطاب میں حق تعالیٰ نے بتادیا کہ میرے اس مقبول بندے کو میری یاد کی برکت سے دنیا ہی میں اطمینان حاصل تھا ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ تو اپنے پروردگار کی طرف چل۔ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً اس طرح سے کہ تو اللہ سے خوش اور اللہ تجھ سے خوش ہے۔ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ میںتو اپنی خوشی کو مقدّم فرمایا تھا اور اب چل چلاؤ کا وقت ہے تو بندے کی خوشی کو مقدم فرمایا ہے، جس میں یہ لطیف اشارہ بتادیا کہ اب تک تو میری مرضیات کا تابع تھا اور اپنی خوشی کو میری خوشی پر قربان کرتا تھا، اب عالم بدل رہا ہے، اب صرف تیری خوشی رہے گی، اب تجھے اتنا دوں گا کہ تیری خوشی تھک جائے گی اور میری عطا دینے سے نہ تھکے گی۔چناں چہ جنت میں مؤمن کی ہر خواہش پوری ہوگی۔ فائدہ: اُن آیتوں کی یہ تفسیر نہیں ہے، کیوں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ’’بیان القرآن‘‘ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ یہ خطاب قیامت کے دن ہوگا، جیسا کہ قرینۂ مقام بتاتا ہے، البتہ بعض روایات میں آیا ہے کہ مرنے کے وقت مؤمن سے یہ کہا جاتا ہے، لیکن ان روایات میں نہ تو تفسیر اس آیت کی مقصود ہے اور نہ وقتِ موت کی تخصیص ، پس یہاں جو مضمون ان آیتوں سے متعلق ہے وہ حدیثوں سے ماخوذ ہے۔ ------------------------------