معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ایک مقام پر فرماتے ہیں ؎ شمس تبریزی کو نورِ مطلق است آفتاب است و ز انو ارِحق است مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میرا پیر شمس تبریزی کہ وہ مطلق نور ہے، یعنی اس کی ظلماتِ نفسانیہ تو اردِ تجلیات ِ الٰہیہ سے فنا ہوگئی ہیں اور میرا پیر طالبین کے قلوب کے لیے افاضۂ نور میں مثل آفتاب کے ہے اور اس آفتابِ تبریزی میں جو نور ہے وہ انوار ِحق سے مستفید ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر کی صحبت میں رہ کر اپنی نسبت میں تمام اس آگ کو جذب کرلیا جس کے متعلق حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! مجھے ایسا بندہ دیجیے جو میری صحبت کا متحمل ہوسکے، اور پھر علوم اور معارف کا آپ کے سینے میں ایسا جوش ہوا کہ آپ نے ایک مثنوی لکھی، جس میں اٹھائیس ہزار آٹھ اشعار ہیں اور ہر شعر الہامی ہے،یعنی وارداتِ غیبیہ ہیں، جس کو مولانا خود بیان فرماتے ہیں ؎ قافیہ اندیشم و دلدارِ مَن گویدم مندیش جُز دیدارِ من جب میں قافیہ سوچنے لگتا ہوں تو میرا محبوب مجھ سے کہتا ہے: مت سوچ بجز میرے دیدار کے۔ یعنی تم صرف میری طرف متوجہ رہو،قوافی ہم الہام فرمائیں گے، قافیہ اندیشی میں مشغول نہ ہو۔مولانا روم کو اپنے شیخ سے کیا فیض ہوا؟ پیر کے ہاتھوں سے جو نعمت ملی مثنوی ہے صد تشکرسے بھری