معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہوجاتے ہیں تو دوسرے کام پیش آجاتے ہیں۔ اسی طرح ساری زندگی انتظارِ اطمینان میں بے ذکر کے گزر جاتی ہے۔ ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ذکر کے لیے جمعیتِ خاطِر کا انتظار نہ چاہیے، جس حال میں ہو بس ذکر کی پابندی شروع کردو، ذکر ہی سے اطمینان بھی میسّر ہوگا،اطمینان خود موقوف ہے ذکر پر، ذکر کے لیے اطمینان کا کہاں سے انتظار کرتے ہو۔ایک حکایت ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ نے وعظ میں فرمایا تھا کہ ایک شخص کو حضرت خضرعلیہ السّلام سے ملنے کا بہت شوق تھا۔ اتفاق سے کہیں ملاقات ہوگئی، تو اس شخص نے دعا کی درخواست کی۔ حضرت خضر علیہ السّلام نے فرمایا: بھائی! کس بات کی دعا کریں؟ عرض کیا کہ اطمینانِ قلب میسّر ہونے کی دعا کردیں۔ فرمایا: جس شخص کو تم بڑے چین اور اطمینان میں پاتے ہو اس جیسا تمہیں ہوجانے کی دعا کردوں اور تم کو اس کے لیے چھ ماہ کی مہلت دیتا ہوں، اتنی مدت میں تم تلاش کرلو کہ کون آدمی بڑے عیش و راحت سے اپنی زندگی گزارتا ہے۔ چھ مہینے تک یہ شخص تلاش کرتا رہا۔ بالآخر ایک جوہری پر اس کی نظرِ انتخاب پڑی۔ وہ جوہری بڑے درجے کا رئیس تھا۔ اس کے نوکر چاکر، مال و دولت اور عالی شان مکان کو دیکھ کر اس کو حرص ہوئی کہ اس جیسا بننے کی دعا کراؤں گا، لیکن دل میں خیال گزرا کہ ذرا اس سے معلوم بھی کرلیں کہ بھائی! تمہاری زندگی کیسی گزرتی ہے؟چناں چہ اس شخص نے جوہری سے دریافت کیا اور اس سے اپنا سب قصّہ بھی کہہ سنایا۔ اس جوہری نے رو کر کہا کہ بھائی! خدا کے لیے مجھ جیسا ہونے کی دعا مت کرانا، بڑی تلخ زندگی ہے میری، بڑا غم زدہ ہے میرا حال۔ پھر اس جوہری نے اپنا سب قصّہ سنایا کہ میری ایک حسین بیوی تھی، جس پر میں عاشق تھا، ایک بار وہ قضائے الٰہی سے بیمار ہوئی، تو اس نے کہا کہ تمہارا عشق سب زبانی ہے، میرے مرنے کے بعد تم دوسری شادی کرلو گے۔ بس غلبۂ محبت میں مجھے ایسا جوش آیا کہ میں نے اپنا عضوِمخصوص ہی کاٹ دیا، تاکہ