معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
روزہا گر رفت گورو باک نیست توبماں باقی کہ چوں تو پاک نیست دنیا میں سب سے بڑی نعمت اور مطلوب شے عمل ہے، یعنی مرضِیٔ الٰہی کے مطابق زندگی گزارے۔رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً کی تفسیر اعمالِ حسنہ سے ہمارے مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ نے’’ بیان القرآن‘‘ میں حسنۃ کی تفسیر اعمالِ حسنہ سے فرمائی ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ اس آیت رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً سے ہمارے زمانے کے طالبانِ دنیا کو شبہ پڑگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں طالبانِ دنیا کی مدح فرمائی ہے جب کہ وہ طالبِ آخرت کے بھی ہوں،اور یہ بڑی غلطی ہے، کیوں کہ اٰتِنَا کا مفعول بہ حسنۃ ہے، اور دنیا مفعول فیہ ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا ظرف طلب ہے، خود مطلوب نہیں، بلکہ مطلوب حسنۃ ہے۔ خلاصہ یہ کہ لوگ اس کے طالب ہیں کہ ہم کو دنیا میں رہتے ہوئے حسنۃ یعنی وہ حالت جو آپ کے نزدیک مستحسن اور پسندیدہ ہو، عنایت کی جاوے، اور اصل پسندیدہ اعمالِ حسنہ ہیں، پس بالذات وہ مطلوب ہوئے، اور دنیا کے جس قدر حصے کو ان اعمالِ حسنہ میں دخل ہے خواہ مال ہو یا صحت ہو، وہ البتہ اس حسنۃ کے تابع ہوکر بالعرض و بالغیر مطلوب ہوجاوے گا، بخلاف اس وقت کی تعلیم و طرزِ عمل کے جس میں دنیا کو مطلوب بالذات اور آخرت کو محض برائے نام قرار دے رکھا ہے، حاشا وکلّا اس کو آیت سےمس بھی نہیں ہے، غایت مافی الباب اگر طلبِ دنیا میں حلال و حرام کی حدو د شکستہ نہ کی جاویں تو اباحت کا حکم کردیا جائے گا لیکن مباحِ شرعی ہونے سے مطلوبِ شرعی ہونا لازم نہیں خوب سمجھ لو۔(ازبیان القرآن، سورۂ بقرہ) بعض مفسرین نے حسنۃ کی تفسیر علمِ دین سے کی ہے، اس معنیٰ کے اعتبار سے کہ اعمالِ حَسَنَہ کا مدار علم ِدین پر ہے۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر سے اس تفسیر کی تائید ہوجاتی ہے۔