معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تمام مسلمانوں سے کمتر سمجھتا ہوں فی الحال اور کافروں سے اپنے کو بدتر سمجھتا ہوں فی المآل۔ یعنی ہر مسلمان کے متعلق یہ خیال کرتا ہوں کہ چوں کہ فی الحال ایمان کی نعمت موجود ہے اس لیے ممکن ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی عمل اللہ کے نزدیک ایسا محبوب ہو جو اس کی مقبولیت کا سبب ہو اور میرے ساتھ ممکن ہے کہ کوئی ایسا عمل موجود ہو جو اللہ کے نزدیک میری نامقبولیت کا سبب بن جائے۔ پس اس احتمال کے ہوتے ہوئے ہمیں ہر گز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم کسی فاسق اور گناہ گار مسلمان کو حقیر سمجھیں اور اس سے اپنے کو بہتر سمجھیں۔ اسی طرح کافر کے متعلق یہ خیال کرتا ہوں کہ فی الحال تو ایمان اس کو حاصل نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے اس کو ایمان نصیب ہوجائے اور اعتبار خاتمہ ہی کا ہے، اور ممکن ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے کسی معصیت کی نحوست سے میرا ایمان سلب کرلیا جائے، پس جب تک خاتمہ ایمان پر نہ ہوجائے اس وقت تک ہم کو ہر گز حق نہیں ہے کہ ہم اپنے کو کسی کافر سے افضل سمجھیں اور اس کو حقیر سمجھیں۔ البتہ اس کے کفر سے عداوت رکھنا مطلوب ہے۔حضرت بڑے پیر صاحب کی شانِ عبدیت حضرت بڑے پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ایمان چوں سلامت بہ لبِ گور بریم احسنت بریں چُستی و چالاکیِ ما حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ایمان کو سلامتی کے ساتھ قبر میں پہنچائیں گے اس وقت اپنی چُستی و چالاکی پر تعریف کریں گے، اور جب تک زندگی ہے اس وقت تک خطرہ ہے۔ جب تک کشتی طوفان کے تھپیڑوں سے دوچار ہے اس وقت تک مطمئن ہوجانا بے وقوفی ہے۔ عارفین کی شان یہی ہے کہ کرتے رہتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں۔یہی ڈرنا ہی ولایت کی نشانی ہے، اگر یہ ڈر نکل گیا تو ولایت بھی ہاتھ سے نکل گئی۔