معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ان کے دلوں میں حسبِ ضرورت وقتاً فوقتاً ہر نئی چیز کے متعلق اس کی پوری صنعت گری مع اس کے اجزائے ترکیب کے الہام فرماتے رہتے ہیں، پھر حکمِ الٰہی اور ارادۂ الٰہی کا تابع ہوکر وہ بندہ اللہ تعالیٰ ہی کے پیدا کیے ہوئے ان اجزا میں ترکیب اور ترتیب دیتا ہے اور حق تعالیٰ شانہٗ اپنے بندوں کے ہاتھوں سے اسی طرح نئی نئی مصنوعات ایجاد فرماتے رہتے ہیں۔ چناں چہ حق تعالیٰ شانہٗ فرماتے ہیں: اِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ۙ﴿۷﴾ وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَیَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸﴾؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور واقعی تمہارا رب بڑی شفقت والا اور رحمت والا ہے (کہ تمہارے آرام کے لیے کیا کیا سامان پیدا کیے) گھوڑے اور خچر اور گدھے بھی پیدا کیے، تاکہ تم ان پر سوار ہو اور نیز زینت کے لیے بھی اور وہ ایسی ایسی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) بناتا ہے جن کی تمہیں خبر بھی نہیں۔‘‘ (بیان القرآن) وَیَخْلُقُ مضارع ہے اور مضارع میں خاصیت تجدّد و استمرار کی ہوتی ہے، یعنی یہ فعلِ تخلیق برابر جاری رہے گا اور اس خاصیت تجدّد استمراری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’اور اللہ تعالیٰ ایسی چیزیں بناتا رہتا ہے جن کی تمہیں خبر بھی نہیں۔‘‘ پس اس آیت یَخْلُقُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ میں قیامت تک کی تمام نئی نئی ایجادات داخل ہیں۔ دہریوں کی عقل ماری گئی ہے جو سائنس کی نئی نئی تحقیقات سے متأثر ہوکر اپنے پیدا کرنے والے ہی کو بھول گئے۔سائنس کی حقیقت سائنس تو خود مخلوق ہے۔ سائنس کی حقیقت کیا ہے؟ سائنس میں اگر کچھ دم ہے تو ایک مکھی یا مچھر کا پَر بنادے، جس کا ظاہر اور باطن مکھی یا مچھر کے پَر سے سَرمُو فرق نہ رکھتا ہو،یا کسی درخت کی ایک پتّی ہی بنادے، جس کے اندر بالکل اسی ------------------------------