معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مَعْرُوْفاس بات کو کہتے ہیں جو جانی پہچانی ہو، کیوں کہ معروف عرفان سے ماخوذ ہے ، بھلی باتوں سے چوں کہ طبعاً اُنس ہوتا ہے اس لیے وہ باتیں گویا جانی پہچانی ہوتی ہیں، اور مُنْکَر کے معنیٰ بے جان پہچان کے ہیں، منکر نکیر اُن فرشتوں کا نام اسی سبب ہے کہ وہ بے جان پہچان کے ہوتے ہیں،فَعَرَفَہُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یوسف علیہ السّلام نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا اور اُن لوگوں نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو نہیں پہچانا۔ جتنی بُری باتیں ہیں وہ فطرتاً طبیعت کے لیے غیر مانوس ہوتی ہیں، یعنی ہر معروف سے طبعاً اُنس ہوتاہے اور ہر منکر سے طبعاً ناگواری ہوتی ہے، مگر مراد طبیعت سے طبیعتِ سلیمہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام سب سے آخر میں سپرد کیا جاتا ہے، جب خوب پختگی پیدا ہوجاتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بعد حق تعالیٰ ایک انعام اور عطا فرماتے ہیں، یعنی اپنی حدود کا پاسبان مقرر فرمادیتے ہیں: وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللہِ یہ خود بھی حدودِالٰہیہ کا محافظ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی حفاظتِ حدودِ الٰہیہ کی تعلیم دیتا ہے، اور جو کچھ عبدیت میں نقصان دیکھتا ہے اس کی تلافی توبہ سے کرتا رہتا ہے۔ توبہ کے بارے میں ایک دھوکا لوگوں کو ہوتا ہے وہ یہ کہتوبہ کے متعلّق ایک شبہ اور اُس کا جواب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر توبہ کرکے توڑ دی تو وہ توبہ ہی بے کار ہے، اسی لیے بعض لوگ توبہ ہی نہیں کرتے کہ شاید پھر ٹوٹ جائے، ہمارے حضرت والا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شبہے کے ازالے کے لیے ایک حدیث نقل فرمائی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ توبہ نام ہے اپنی معصیت پر ندامتِ خالصہ کا۔ جب گناہ تجھ سے صادر ہوجاوے پھر تو نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی درخواست کرے اور پھر کبھی اس کی طرف عود نہ کرے، یعنی دل سے یہ ارادہ پختہ ہو کہ اب دوبارہ اس گناہ کو نہ کروں گا، گو غلبۂ نفس وشیطان سے پھر وہی گناہ ہوجاوے، پھر اسی طرح ندامت و استغفار و عزم علی التقویٰ کا حکم ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے: