معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کہ میں جس طرح عظمت و کبریائی اور جلالتِ شانِ خداوندی کے سامنے عاجزی اور مسکنت سے قیام، رکوع اور سجدہ بجالاتا ہوں تم اس کی نقل کرسکتے ہو۔ پہلے ہماری عبدیت نماز کی حالت میں دیکھو، پھر تم اپنی نمازوں میں اس کی نقل کرو۔صحبتِ اولیاء اللہ کی ضرورت پرحدیثِ مذکور سے استدلال اسی حدیثکَمَارَأَیْتُمُوْنِیْ میں صحبتِ اہل اللہ کی ضرورت کا ثبوت بھی موجود ہے، یعنی دین سیکھنے کے لیے نمونہ سامنے ہونا چاہیے،چناں چہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور آپ سے بندگی سیکھی، پھر حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہم نے دیکھ کر ان کی عبدیت کی نقل کی، پھر تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی عبدیت کی نقل کی تبع تابعین نے۔ اس طرح قیامت تک اہل اللہ کے ذریعے اس نقل کا سلسلہ قائم رہے گا اور دینِ حقیقی اسی نقل سے ملتا ہے، کتابوں سے اور تعلیمِ قولی سے بندگی نہیں آتی، بندگی تو کرکے دکھائی جاتی ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کَمَارَأَیْتُمُوْنِیْ فرمانا کہ جس طرح مجھے دیکھتے ہو نماز پڑھتے ہوئے اس طرح نماز پڑھو،یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ دین قیل و قال سے نہیں آتا بلکہ کسی صاحبِ حال کی بندگی اور غلامی دیکھ کر اس کی حرکات و سکنات، قیام و رکوع اور سجود میں اس کے بدن کے ہر جوڑسے جو عظمتِ الٰہیہ کے پیشِ نظر ایک خاص مسکنت اور عاجزی ٹپکتی ہے اس کو دیکھ کر قلب پر جو اثر پڑتا ہے اور بندگی کی جو رُوح ملتی ہے، وہ کتابوں سے اور قیل و قال سے کہاں مل سکتی ہے۔ جج اکبر الٰہ آبادی نے خوب فرمایا ہے ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا اسی لیے حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ خیز اے نمرود پر جو از کساں نردبانی نایدت از کر گساں