معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کی تواضع کو حدِ ناشکری تک پہنچادیتا ہے۔ اس کی تحدیث بالنعمت میں ریا اور فخر شامل ہوجاتا ہے اور اس کو پتا بھی نہیں لگتا۔ اسی طرح استغنا عن الخلق یعنی مخلوق سے بے پروائی کو بدخلقی کی حدتک پہنچادیتا ہے۔یہ شیخ مبصّر کا کام ہے، جو سالک کو آگاہ کرتا ہے کہ تمہاری اس تواضع میں کفرانِ نعمت ہے، یا تمہاری اس تحدیث نعمت میں ریا اور تفاخر داخل ہے، تمہارا یہ استغناء عن الخلق غلبۂ توحید سے ناشی نہیں بلکہ تکبّر کے سبب ہے۔استغنا از تکبّر اور استغنا از غلبۂ توحید کا فرق غلبۂ توحید سے جس استغنا کی شان بزرگوں پر غالب ہوجاتی ہے اس میں تواضع کا اثر ہوتا ہے، کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی،اور جو استغنا تکبّر سے پیدا ہوتی ہے اس میں مخلوق کے ساتھ خشکی اور بدخلقی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ بحرِتلخ و بحرِ شیریں ہمعناں درمیانِ شاں برزخ لا یبغیاں دریائے شوریعنی اخلاقِ رذیلہ اور دریائے شیریں یعنی اخلاقِ حمیدہ دونوں دوش بدوش چلتے ہیں، لیکن ان کے درمیان فرق ہوتا ہے، جس کو شیخِ کامل نورِ فراست سے سمجھ لیتا ہے اور اس کی صحبت کے فیض سے طالب میں بھی یہ سمجھ پیدا ہوجاتی ہے۔مبتدی کے لیے تحدیث بالنّعمت جائز نہیں ہے ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ مبتدی کے لیے تحدیث بالنعمت جائز نہیں، کیوں کہ ابھی اس کے اندر اخلاص کا رسوخ نہیں، عادتاً اس کا ریا سے محفوظ رہنا ناممکن ہے، تحدیث بالنعمت کا مقام منتہی کا ہے۔مدارات اور مداہنت کا فرق اسی طرح مدارات اور مداہنت میں فرق ہوجاتا ہے۔ جو محقق پیر ہوتا ہے وہ دونوں کے فرق سے طالب کو آگاہ کرتا ہے۔ ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ