معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کرنے والا بُری باتوں کا۔ پھر یہی نفس جب بُری باتوں سے توبہ کرلے تو مرتبۂ توبہ میں یہ نفس لَوَّامَہ کہلاتا ہے۔ اب توبہ کی برکت سے حق تعالیٰ کی رحمت و عنایت اس پر ہوتی ہے، جس کے اثر سے یہ نفس مطمئنہ ہوجاتا ہے۔ پھر جب دنیا سے چل چلاؤ ہوتاہے تو دو خطاب اس کو اور عطا ہوتے ہیں:رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً اے نفس مطمئنہ! تو اللہ سے راضی اور اللہ تجھ سے راضی ؎ دونوں جانب سے اشارے ہوچکے ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکےنفس کے پانچ خطابات پس اس نفس کے پانچ خطابات ہیں:۔ امّارہ بالسّوء، لوّامہ، مطمئنہ، راضیہ، مرضیہ۔ حق تعالیٰ کے مقبول بندوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس پر ہمیشہ بدگمان رہتے ہیں، حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنی عبودیت اور عجز کو عظمتِ الٰہیہ کے سامنے پیش کردیا، کہ میں اپنے نفس کو بَری نہیں بتلاتا، نفس تو بُری ہی بات بتلاتا ہے۔ اور حق تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السّلام کے اس قول پر یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کہہ رہے ہو جب کہ ہم آپ کی براءت پر شہادت دے رہے ہیں،اس سے یہ بتادیا کہ بندوں کی طرف سے ہم کو یہی پسند ہے۔ یہاں تک تو اپنی عبدیتِ کاملہ کا اظہار تھا، آگے حق تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ کا حق ادا فرما رہے ہیں:اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕبجز اس کے جس پر میرا رب رحم کرے۔ عارفین کی یہی شان ہو تی ہے کہ وہ اپنی طاعات و حسنات کو حق تعالیٰ کی رحمت اور عنایت سمجھتے ہیں۔ جن اعضاسے ہم عبادت کرتے ہیں وہ بھی تو ان ہی کے دیے ہوئے ہیں، اور ان اعضا میں قوتیں کام کرنے کی کہاں سے آئیں؟ ایسے جوڑ دار اعضا جو قیام، رکوع، سجدے میں بآسانی پھیلتے اور سُکڑتے ہیں کس نے پیدا کیے؟ کیا ہمارا ہے جو ہم اپنے وجود کا نام لیتے ہیں؟