معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
عوام کی طاقت چوں کہ اخلاص اورخشیت کی روح سے خالی ہوتی ہے اس لیےیہ طاعت عامہ مقربانِ حق کے لیے معصیت اور گستاخی ہے۔ حضرت آدم علیہ السّلام کو چوں کہ مقتدا بنانا تھااس لیے شانِ مقتدائیت کا اقتضا یہ تھا کہ آپ کے نسیان کو عصیان سے تعبیر فرمایا جائے، اس تعبیر سے حضرت آدم علیہ السّلام کی رفعتِ شان کا ظہور ہوتاہے، جیسا کہ حضرت عارف فرماتے ہیں ؎ گر خفاشے رفت در کور وکبود باز سلطاں دیدہ را بارے چہ بود اگر خفاش( چمگادڑ)کوروکبود گندی نالی میں چلا گیا تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے،کیوں کہ اس کی فطرت ہی ظلمت پسند واقع ہوئی ہے ، لیکن وہ باز جو سلطان کا مقرب ہے تو اس مصاحبِ آفتاب کا تاریکی اور ظلمت(اندھیری) کی طرف مائل ہونا بےشک تعجب خیز امر ہے۔ حق تعالیٰ کی ربوبیت کی شانیں غیر محدود ہیں۔کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ؎ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے۔تعبیرِ عصیان سے جو ربوبیت مقصود تھی اس کی تکمیل کے بعد حق تعالیٰ نے اس شانِ ربوبیت کو دوسری شانِ ربوبیت سے بدل دیا، یعنی تعبیرِ عصیان کو تعبیرِ نسیان سے بدل کر آپ کے غم زدہ اور ٹوٹے ہوئے دل پر نسیان کا مرہم رکھ دیا، تاکہ اب کارخانۂ خلافت کا کاروبار گرم ہوجائے۔ یہ قرآنی لطائف ہیں جن کے اندر اہلِ طریق کے لیے احوالِ باطنیہ سے متعلق مفید مضامین حق سبحانٗہ تعالیٰ نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے کہلادیے ہیں۔حضرت سلیمانکی عبدیت حضرت سلیمان علیہ السّلام کے سامنے ہُدہُد نے جب تذکرہ کیا کہ مُلکِ سبا میں بلقیس (جو ایک جنّیہ کی لڑکی تھی) کی بڑی بادشاہت دیکھ کر آیا ہوں، تو آپ نے اس کے نام ایک خط لکھ کر دیا کہ اس کا جواب لاؤ۔ ------------------------------