معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مولانا رومی کے قلب میں اپنے پیر کی محبت اپنے پیر سے دم بھر کی جدائی کا تحمل نہ پاتے تھے۔ عجیب و الہانہ تعلق حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ سے پیدا ہوگیا۔ کہاں تو بادشاہ کے نواسے تھے، عمامہ و جبے کے ساتھ پالکی پر چلتے تھے اور سینکڑوں شاگرد آپ کی جوتی سیدھی کیا کرتے تھے اور اب پیر کی محبّت میں پیر کے پیچھے پیچھے، پیر کا سب سامان بستر، گدڑی، چکی، پیالہ، لوٹا اور غلہ وغیرہ سر پر رکھے ہوئے پھرنے لگے ؎ شیخ کا بستر لیے سر پر چلے عشق کی ذلّت سے سودا کر چلے (ازمرتّب) ایں چنیں شیخِ گدائے کُو بہ کُو عشق آمد لَااُبَالِیْ فَاتَّقُوْا مولانا نے اسی غلامی کو بڑے فخر سے اس شعر میں بیان فرمایا ہے ؎ مولوی ہر گز نشد مولائے رُوم تا غلامِ شمس تبریزی نشد مثنوی شریف میں جہاں جہاں حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کا یا پیر کا لفظ آ گیا ہے مولانا پر ایک حالت طاری ہوگئی ہے اور صفحات در صفحات اشعار پیر کی محبّت میں فرما گئے ہیں، چناں چہ فرماتے ہیں ؎ پیر باشد نردبا نِ آسماں تیر پرّاں از کہ گردد از کماں پیر آسمان تک رسائی کے لیے بمنزلۂ سیڑھی کے ہے،تیر کا تیز رفتاری سے اڑنا کمان ہی کے فیض پر منحصر ہے ؎