معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بڑھ کر کون ولی ہوسکتا ہے مگر حق تعالیٰ ان کی تمام پرہیز گاری اور دینداری کو اپنی عنایت فرمارہے ہیں: وَ لٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ نِعۡمَۃً ؕ وَ اللہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۸﴾؎ لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دل میں مرغوب کردیا اور کفر اور فسق اور عصیان سے تم کو نفرت دے دی، ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے فضل اور انعام سے راہِ راست پر ہیں اور اللہ تعالیٰ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ایک علمِ عظیم ان آیتوں سے حق تعالیٰ نے طریق سے متعلق ایک علمِ عظیم عطا فرمایا ہے،وہ یہ کہ سالک اپنے ایمان اور اعمالِ حسنہ کو نیز کفر اور فسق اور نافرمانیوں سے نفرتِ اعتقاد یہ طبعیہ کو محض فضلِ الٰہی سمجھے ، کبھی اپنے ذکر اور شغل اور مجاہدے کا ثمرہ نہ سمجھے، کیوں کہ یہ ذکر،شغل اور مجاہدات فی نفسہٖ ان احوالِ محمودہ کے لیے علّت نہیں ہیں، البتہ یہ رحمتِ الٰہیہ کی تحصیل کے اسباب ہیں۔ چناں چہ ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اُن تمام نعمتوں کو (یعنی ایمان کا دل میں محبوب اور مرغوب ہوجانا، کفر اور فسق ومعاصی کا قلب میں مکروہ ومبغوض ہوجانا) اپنی طرف منسوب فرمایا ہے، حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کسی مجاہدے اور ریاضت کی طرف ان نعمتوں کی نسبت نہیں فرمائی۔ اس میں فنائیت کی عجیب تعلیم ہے، اور نصِ قطعی سے اس فنائیت کی تعلیم مل جاتی ہے، جو حضرات صوفیا اپنے متعلقین کو اہتمام کے ساتھ بتلایا کرتے ہیں۔ سورۂ نجم میں حق تعالیٰ نے ہمیں اپنے کو مقدس سمجھنے سے منع فرمایا ہے اورعجیب عنوان سے نہی فرمائی ہے، جس میں تکبر کا علاج بھی موجود ہے، ارشاد فرماتے ہیں: ------------------------------