معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حضرت عمر کی آخری وصیت حضرت عمررضی اللہ عنہ کو جب خنجر لگا اور شہادت کا وقت قریب آ پہنچا تو آپ نے آخری وصیت یہ فرمائی کہ اپنے کو سب سے بُرا سمجھنا، جو اپنے کو اچھا سمجھے گا ہلاک ہوجائے گا۔ اتنے میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوئے(یہ رومی نہ تھے، لیکن اہلِ روم ان کو پکڑ کر لے گئے تھے اس لیے رومی کا لقب پڑگیا تھا) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حالتِ نزع میں دیکھ کر رونے لگے، وَاعُمَرَاہُ، وَاحَبِیْبَاہُ، وَااَخَاہُ؎ کہنے لگے، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا بات فرمائی؟ ایسی بات فرمائی جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، دوسروں کو بندگی سکھاگئے، ارشاد فرمایا:’’اے صہیب! میری تعریف مت کرو، اگر حق تعالیٰ مجھے کسی عمل پر اجر نہ دیں صرف برابر سرابر چھوڑدیں تو میں اس کو غنیمت سمجھوں گا۔‘‘ یہ حضرات دین کی سمجھ رکھنے والے تھے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مَنْ نُوْقِشَ فِی الْحِسَابِ فَقَدْعُذِّبَ؎ ’’جس سے حساب میں کُرید ہوگی قیامت کے دن تو سمجھ لو کہ بس اس کی خیر نہیں، وہ عذاب میں پکڑلیا گیا۔‘‘ اسی لیے اس دعا کی تعلیم دی گئی کہ : اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنیِ حِسَابًایَّسِیْرًا اے اللہ! قیامت کے دن مجھ سے حساب آسان فرما۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ذرّۂ سایہ عنایت بہتر است از ہزاراں کوششِ طاعت پرست ایک ذرّہ عنایتِ حق کا سایہ بہتر ہے طاعت پرست کی ہزاروں کوشش سے ------------------------------