معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
خلاصۂ معرفتِ الہٰیہ حق تعالیٰ کی پہچان کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ معرفت کے لیے تین باتیں ضروری ہیں: (۱)صحبتِ اہل اللہ ( ۲)کثرتِ ذکر اللہ (۳)تفکر فی خلق اللہ صحبتِ اہل اللہ کو مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ والوں کی صحبت ہی سےاللہ تعالیٰ کی یاد کا شوق پیدا ہوتا ہے، ان کی صورت دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتے ہیں، اور اُن کی نورانی گفتگو سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے، اور محبت سے ذکر کی توفیق ہوتی ہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ فقر خواہی آں بصحبت قائم است نہ زبانت کارمی آید نہ دست مولانا فرماتے ہیں کہ اگر فقر چاہتے ہو یعنی حق تعالیٰ کا راستہ طے کرنا چاہتے ہو تو وہ صحبت ہی سے قطع ہوتا ہے، نہ محض زبان کام آتی ہے نہ ہاتھ کام آتا ہے، اس کی تصریح حق تعالیٰ نےاس آیت میں فرمادی ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ڈریں اللہ سے ڈرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کس طرح فریاد کرتے ہیں بتا دو قاعدہ اے اسیرانِ قفس میں نو گرفتاروں میں ہوں تو اس کا جواب فرمادیا وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ اور سچوں کے ساتھ رہ پڑو۔ جن کے ظاہر اور باطن دونوں خدا کے خوف سے سچے ہوں، ان کی صحبت کی برکت سے ان کا صدق فی الاعمال اور ان کا صدق فی المقال تمہارے اندر بھی آجائے گا۔ کثرتِ ذکراللہ کو تفکر فی خلق اللہ سے اس لیے مقدم کیا گیا ہے کہ بکثرت ذکر سے قوّتِ فکریہ میں جِلاء اور صفائی آتی ہے، ذکر کے انوار سے نفس کے ظلمانی