معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
طاقت نہ باقی رہی۔ ایک روز سجدے میں رو کر عرض کیا کہ اے اللہ! یہ امداد اللہ آپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے در پر سوال نہیں کرسکتا۔ اسی رات آپ نے خواب میں ایک ہاتفِ غیبی سے سنا کہ یہ خزانے کی کنجی لے لو۔ آپ نے عرض کیا کہ میں خزانہ نہیں چاہتا ہوں، بس یہ چاہتا ہوں کہ صرف اللہ کا محتاج رہوں، کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اس کے بعد پھر آپ کو کبھی فاقے کی تکلیف نہ ہوئی، اور فتوحاتِ غیبیہ کھل گئیں اور کچھ دن بعد تو جوق در جوق طالبین آنے لگے اورآپ شیخ العرب و العجم ہوگئے۔لیکن حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانۂ تنگی اور فاقہ زدگی میں حق تعالیٰ کی طرف سے جو انوار اور فیوض اور نفحاتِ کرم قلب پر وارد ہوتے تھے اس لطف کو اب دل ترستا ہے۔اللہ والوں کا اپنی گدڑی میں اطمینان اللہ والے اپنے پیوندی لباس اور بوریا نشینی میں جس چین اور محبتِ الٰہیہ کی لذّت میں رہتے ہیں اگر سلاطین کو ان کی اس باطنی لذّت کی خبر ہوجائے تو تلواریں لے کر چڑھائی کردیں۔ لیکن یہ نعمت تلواروں سے نہیں ملتی ہے، یہ نعمت تو کسی اللہ والے کی جوتی سیدھی کرنے ہی سے ملتی ہے، اور وہ اللہ والا اپنی اس شکستہ حالی میں بزبانِ حال یہ کہتا ہے کہ ؎ ما اگر قلاش و گر دیوانہ ایم مست آں ساقی و آں پیمانہ ایم اگرچہ ہم قلاش اور دیوانے ہیں لیکن دنیائے مردار کے طالب نہیں ہیں، اس ساقیٔ ازل اور اس پیمانے کے مست ہیں جس نے روزِ ازل اپنے دستِ کرم سے ہمیں پلایا تھا۔انسان کے خمیر میں حق تعالیٰ کی محبّت جرعۂ می ریخت ساقیِ الست برسرِ ایں خاک شد ہر ذرّہ مست