معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
میں ہے عظمتِ الٰہیہ کے سامنے دبا ہوا جھکا ہوا ہے، سجدے میں ہے عظمتِ الٰہیہ کے سامنے دبا ہوا پڑا ہے، تو یہ کیفیت ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو لغو باتوں سے بچتے ہیں، اپنے تمام اعضاء کو نافرمانیوں کی گندگی سے بچاتے ہیں۔ جو خارجِ نماز میں اپنی شانِ غلامی کا حق ادا کرتا ہے وہ داخلِ نماز میں بھی غلامی کا تاج سر پر رکھتا ہے، پنجگانہ نمازوں کے درمیانی وقفات اور اوقات میں بھی بندہ غلام ہے، نماز کے بعد آزاد نہیں ہوجاتا ہے کہ اب جو جی چاہے کریں، خواہ جھوٹ بولیں یا کسی عورت پر بدنگاہی کریں یا دل کو ذکر اللہ سے غافل کرکے اسبابِ معاش میں حلال و حرام کی تمیز چھوڑ بیٹھیں۔ بندہ تو ہر وقت بندہ ہے، خارجِ نماز میں بھی بندہ ہے، غلام کی ہر سانس غلام ہوتی ہے۔حصولِ خشوع فی الصّلٰوۃ کا طریقہ جو شخص خارجِ نماز میں اپنے اعضاء کی جس قدر حفاظت کرتا ہے اور گناہوں کی گندگی سے پاک رکھتا ہےاسی قدر داخلِ نماز میں اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص حضوری اور خشوع میسّر ہوتا ہے، یہی وہ بندے ہیں کہ نماز میں بھی غلامی کا تاج سروں پر ہے اور خارجِ نماز میں بھی غلامی کا تاج سروں پر ہے ؎ غلامِ نرگسِ مستِ تو تاجدار انند خراب بادۂ لعلِ تو ہوشیار انند پیرِ ماسرِّ عالِم مَسْتی با دلِ ہوشیار میگو ید ہمارا پیر عالمِ مستی کا بھید ہوشیار دل سے بیان کرتا ہے۔امانتِ الٰہیہ کا بار کس نے اٹھایا؟ الغرض انسان نے روزِ میثاق اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے سوال میں جو انوار اور تجلّیات ربوبیت کے دیکھے تھے اس کی لذّت اور کیفیت نے اس امانتِ الٰہیہ کو یعنی