معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اپنے کو حقیر سمجھنا درجۂ تصور میں ناکافی ہےفنائیت درجۂ تصدیق میں مطلوب ہے غیر عارف کا اپنے کو حقیر سمجھنا درجۂ تصور میں ہوتا ہے، لیکن اس میں نفس کی چال بھی شامل ہوتی ہے،یعنی غیر عارف اپنے دل میں یہ کہتا ہے کہ دراصل میرے اندر تواوصافِ حمیدہ ہیں لیکن چوں کہ حکم ہے کہ اپنے کو سب سے کمتر سمجھو اور کسی کو حقیر نہ جانو اس لیے اپنے کو سب سے کمتر سمجھتا ہوں، تو یہ سمجھنا تصور کا درجہ ہے، اور محض تصورات غیر مفید ہوتے ہیں۔اور عارف کی شان تصورات سے بالاتر ہوتی ہے، اس کو معرفتِ عظمتِ الٰہیہ کے سبب اپنی عبودیت اور کمتریت کا یقین نصیب ہوتا ہے اور اذعانِ نسبت ہی کا نام تصدیق ہے، اور اہلِ فن اس امر سے واقف ہیں کہ مقصود تصدیقات ہوتے ہیں، تصورات ذریعۂ مقصود ہوتے ہیں۔اعمالِ حسنہ کرکے ڈرتے رہنے پر ایک آیت سے استدلال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!یہ جو آیت ہے: یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ ؎ یعنی دیتے ہیں جو دیتے ہیں اور ان کے دل خوف زدہ ہیں۔ (یہ تمام افعال کو عام ہے، کیوں کہ سب میں ان کو عدم سے ہستی میں لانا ہے اور وجود دینا ہے) کیا مراد اس سے وہ شخص ہے جو چوری اور زنا کرے،(کیوں کہ خوف تو ان ہی افعال کے بعد ہوتا ہے) آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ مراد وہ شخص ہے جو روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور صدقہ دے اور پھر ڈرے کہ اسے قبول نہ کیا جاوے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کی رحمت سے امید نہ رکھے،اورخوف کو غالب رکھا جائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اعمال پر اعتماد نہ کرنا چاہیے اور اچھے اعمال کرکے غرور و ناز میں مبتلا نہ ہو، پس آیت وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ ------------------------------