معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
جہاں دراصل ویرانہ ہے گو صورت ہے بستی کی بس اتنی سی حقیقت ہے فریبِ خواب ہستی کی کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ بن جائے اَلَایَا سَاکِنَ الْقَصْرِ الْمُعَلّٰی سَتُدْفَنُ عَنْ قَرِیْبٍ فِی التُّرَابٖ قَلِیْلٌ عُمْرُنَا فِیْ دَار ِ دُنْیَا فَمَرْ جِعُنَا اِلٰی بَیْتِ التُّرَابٖ اے اونچے اونچے محلوں کے ساکنین! عن قریب تم لوگ مٹی میں دفن کیے جاؤ گے۔ ہماری عمر دنیا کے اس گھر میں بہت قلیل ہے، عن قریب مٹی کے گھر کی طرف یعنی قبر کی طرف ہماری واپسی ہے۔اللہ والے دنیا میں کس طرح رہتے ہیں؟ اللہ والے بھی دنیائے بے ثبات کو برتتے ہیں، مگر اس سے دل نہیں لگاتے۔ ضرورت پوری کرنا اور بات ہے، جی لگانا اور بات ہے، دونوں باتوں میں فرق ہے۔ پاخانے میں آدمی رفعِ ضرورت کے لیے بیٹھتا ہے مگر پاخانہ میں دل نہیں لگاتا ہے۔ دنیا اس وقت مذموم ہے جب اللہ تعالیٰ سے غفلت میں مبتلا کردے۔ جس طرح سے کشتی کے لیے پانی اس وقت ہلاکت کا سبب ہے جب کشتی کے اندر داخل ہوجائے اور کشتی کے باہر کشتی کے لیے مفید اور معین ہے، بلکہ ضروری ہے، اسی طرح بقدرِ ضرورت دنیا ضروری ہے۔ ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ’’ضرورت کی تعریف کم لوگ سمجھتے ہیں، اکثر غیر ضروری کاموں کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے‘‘، پھر فرمایا کہ’’ وہ کام ہے کہ جس کے نہ کرنے سے ضرر ہو۔‘‘ سبحان اللہ! ضرورت کا مفہوم حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے خوب حل فرمایا۔ البتہ