معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
صفات ِالٰہیہ کی پہچان ہوتی، نہ ہاتھ پاؤں اورزبان تھے کہ نماز روزہ اور دیگر عبادتوں سے حق تعالیٰ کی محبت کی تکمیل ہوتی۔ عالمِ ارواح میں چوں کہ روح پر اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ کی آواز سے ایک خاص کیفیت معرفت اور محبت کی طاری تھی اس لیے اس محویت کی لذّت کو اس عالمِ نا سوت میں نہ پاکر دردِ فراق سے بے چین ہوگئی اور ہجر کی شکایت کرنے لگی،کما قال العارف الرومی رحمہ اللہ تعالٰی ؎ بشنوا زنے چوں حکایت می کند و از جدائی ہا شکایت می کندصراطِ مستقیم رُوح کے لیے دوائے ہجر ہے تو اس ہجر کی دوا حق تعالیٰ نے بھیج دی اور فرمادیا کہ یہ عالمِ ناسوت تمہارے لیےحَرْثُ الْاٰخِرَۃ ہے، یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ وہاں تو چیونٹی کی طرح صرف بیج رہتے اور یہاں اب تمہاری ترقی ہو گی۔ اب اس بیج کے پھول پھل دنیا میں ظاہر ہوں گے۔ بیج کی ترقی تو کھیتی ہی سے ہوتی ہے۔ شکایت کی کیا وجہ ہے؟ میں نے تجھے لق و دق میدان کے یا سمندر کی موجوں کے سپرد نہیں کیا، نہ تجھے تیرے نفس کے حوالے کیا، بلکہ تیری طرف سے وکالتاً ہم نے صراطِ مستقیم کی درخواست کا مضمون نازل فرمایا جس کا نام ہم نے سورۂ فاتحہ رکھا ہے، چوں کہ دنیا میں آکر تعلقات بڑھ گئے، میاں بیوی کے تعلقات، استاد شاگرد کے تعلقات، باپ بیٹے کے تعلقات، پڑوسیوں کے تعلقات اور اپنے نفس کے تعلقات،پھر ان تعلقات کے حقوق سامنے آئے اور ہمارے حقوق بھی پیشِ نظر ہوئے، اُدھر نفس کے اندر خواہشات یعنی غضب و شہوت وغیرہ کے تقاضے محسوس ہوئے اور ان خواہشات کے متعلق یہ تشویش ہوئی کہ ان کو کہاں صَرف کیا جائے؟ کہاں صَرف نہ کیا جائے؟ مصارفِ صحیحہ اور مصارفِ غیر صحیحہ کا فرق کیسے معلوم ہو؟ تو ہم نے بندوں کو ان پریشانیوں کے حوالے نہیں کردیا، ہم نے بندوں کی طرف سے صراطِ مستقیم کی درخواست کا مضمون نازل فرمایا ؎