معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تمام بادشاہ مظہر ہیں بادشاہیٔ حق کے، تمام فاضل آئینہ ہیں علمِ حق کے۔مسئلۂ قضاو قدر لیکن حق تعالیٰ کسی کو کافراور جہنمی بناکر نہیں پیدا فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ظلم سے پاک ہے۔ فرماتے ہیں:وَمَا اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ’’اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ تقدیر کا مسئلہ نہایت آسان ہے، حق تعالیٰ نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے مجھے اس مسئلے میں شرح صدر عطا فرمادیا ہے، میں اس مسئلے کو ایک سوال سے سمجھاتا ہوں۔ وہ سوال یہ ہے کہ بندے دنیا میں پیدا ہوکر جو اعمال اور افعال اپنے ارادے اور اختیار سے کرنے والے تھے ان کا علم خدا تعالیٰ کو تھایا نہیں ؟ اگر نہیں تھا تو وہ خدا ہی کیسا جس کا بندوں کے اعمال سے بے خبر اور جاہل ہونا ثابت ہوجاوے؟جہل تو شان ِخداوندیت کے منافی ہے۔ پس لامحالہ یہی جواب دینا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کو اپنے تمام بندوں کے تمام اعمال کا علم تھا، پس اسی علمِ الٰہی کا نام تقدیر ہے، جس کے متعلق حق تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ یہ اپنے ارادے اور اختیار سے مرتے دم تک کفر اور شرک سے تائب نہ ہوگا اس کو جہنمی لکھ دیا۔ لوگوں کو یہ دھوکا ہوجاتا ہے کہ وہ علمِ الٰہی کو امرِ الٰہی سمجھ لیتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے کفر کا امر نہیں فرمایا کہ تم کافر ہوجاؤ، البتہ تمہارے کفر کا علم ضرور تھا کہ تم ایسا کرو گے، وہی لوحِ محفوظ میں لکھ دیا، علمِ الٰہی اور چیز ہے امرِ الٰہی اور چیز ہے۔ پھر تقدیر کی دو قسمیں ہیں: ایک تقدیرِ معلَّق، دوسری تقدیرِ مُبْرم۔ تقدیرِ مبرم بدون کسی شرط کے ہوتی ہے اور تقدیرِ معلَّق مشروط ہوتی ہے کسی شرط سے اور شرط کا علم حق تعالیٰ ہی کو ہوتا ہے۔ اسی کو فرماتے ہیں: