معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
شہدا کو مُردہ نہ کہو اور فقط اتنا ہی نہیں کہ زبان سے نہ کہو بلکہ دل میں خیال تک نہ لانا کہ یہ مرگئے۔کس ذاتِ پاک پر جان کو قربان کیا ہے، یہ تو سوچو، وہ ایسے باقی ہیں کہ جن کے خزانے میں فانی بھی پہنچ کر باقی ہوجاتا ہے۔حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ ؕ؎ جو کچھ تمہارے پاس ہے سب فنا ہونے والا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ پس جب ان عاشقینِ صادقین نے اپنے جسم اور جان کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا تو اب ان کی مخصوص رحمت کی تربیت میں پہنچ گئے، اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّھِمْ ’’اپنے رب کے پاس زندہ ہیں‘‘،یُرْزَقُوْنَ اور’’میاں کے ہاتھ سے کھلائے پلائے جاتے ہیں‘‘یہ مجہول کا صیغہ عجیب رحمت اور شفقت لیے ہوئے ہے، فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ ’’اور یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے بہت خوش ہیں۔‘‘ آگے ارشاد فرماتے ہیں: وَّ اَنَّ اللہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا اجر ضایع نہیں فرماتے۔سرگرمیٔ عشق اللہ تعالیٰ کی محبت کی سرگرمیاں حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اندر قابلِ دید ہیں، ایسی شدّت تھی محبّت میں کہ ہر صحابی بزبانِ حال کہہ رہا تھا ؎ نشو د نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت سرِدوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ ایک عاشقِ صادق کی طرف سے فرماتے ہیں ؎ ------------------------------