معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ارشاد فرمادیا کہ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ نِعۡمَۃً یعنی یوں تو حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؎سے یہ امر متبادراور ظاہر تھا کہ جب ہمارے یہ اعمالِ حسنہ اور احوالِ محمودہ سب عطائے حق ہیں تو تحسین کے قابل وہی ذات منعمِ حقیقی کی ہے، ہم تو محض مٹی کے ایک ڈھیر ہیں،یہ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ کا فرمانا محض بندہ نوازی اور میاں کی حوصلہ افزائی ہے ؎ کارِ زلفِ تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت را تہمتے بر آہوئے چیں بستہ اند لیکن حق تعالیٰ شانٗہ نےفَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ نِعۡمَۃًفرماکر اسی کو اور مؤکد فرما دیا کہ خبردار! کبھی واہمہ بھی اس کا دل میں گزرنے نہ پائے کہ ہم کچھ ہوگئے ہیں کہ ایسے ایسے اعمال اور اخلاقِ حسنہ ہم سے صادر ہونے لگے، یہ محض اللہ کا فضل ہے اور نعمتِ الٰہیہ ہے۔یہ علوم اور یہ فیوض سب ہمارے بڑے میاں کا فیض ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی غلامی کا صدقہ ہے۔ اس راہ میں سچا پیر جس کو مل جائے تو سمجھو بڑی نعمت ہاتھ لگی۔ جاہل اور اناڑی پیر سے تو مرید زندگی بھر تنگ بھی رہتا ہے اور محروم کا محروم رہتا ہے۔ جاہل پیر کی اصلاح بے سمجھی اور نادانی کی اصلاح ہوتی ہے۔ وہ ہر رذیلہ کا نعوذ باللہ! جڑ سے قلع قمع کرنا چاہتا ہے اور اس پر قدرت حاصل نہیں، کیوں کہ رذائلِ نفسانیہ تو انسان کی فطرت اور جبلّت میں داخل ہیں۔رذائل کا امالہ مطلوب ہے نہ کہ ازالہ امراضِ جسمانیہ تو بالکلیہ اچھے ہوسکتے ہیں لیکن نفسانی رذائل کا قلع قمع نہیں ہوسکتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِذَاسَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَنْ مَکَانِہٖ فَصَدِّقُوْہُ، وَاِذَاسَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ زَالَ عَنْ جِبِلَّتِہٖ فَلَا تُصَدِّقُوْہُ ؎ ------------------------------