معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اسی تفسیر کو لیا ہے، یعنی جن اور انسان کو میں نے اس لیے پیدا کیا تاکہ مجھے پہچان لیں۔عالمِ اَرواح سے رُوح کو منتقل کرنے کی حکمت عالمِ ارواح میں تمہاری معرفت کی تکمیل نہ ہوسکتی تھی، کیوں کہ روحِ مجرّد میں بھوک اور پیاس نہ تھی۔ عبادت کے لیے اعضاء نہ تھے کہ رکوع ، سجدہ اور قیام میں وہ اعضاء مختلف شکلوں میں طاعت اور بندگی کرسکتے، پھر ہم نے انسان کو اس جسم کے ساتھ سراپا محتاج بناکر اس عالم میں پیدا فرمایا، تاکہ ہر قدم پر حاجت مند ہوکر ہمیں حاجت روائی کے لیے پکارے اور ہر حاجت سے ہماری صفات کی معرفت حاصل کرے۔ روحِ مجرّد کو عالمِ ارواح میں نہ بھوک لگتی نہ پیاس، اُس وقت بندہ میری ربوبیت اور رزّاقیت کو کیا سمجھتا۔ اب جس وقت بھوک اور پیاس سے مضطر ہوگا اس وقت کھانا کھاکر، ٹھنڈا پانی پی کر بے اختیار ہمارا شکر ادا کرے گا۔ جب اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا اور ندامت کے آنسو بہائے گا تو میری رحمت توبہ قبول کرے گی، اور گناہ کی مغفرت کرے گی،اس وقت میرے بندے کو میری رحمانیت اورغفاریت اور توابیت کی معرفت ہوگی۔ میں اس کے گناہوں کو دیکھتے ہوئے اس کی ستّاری کروں گا، اس وقت اُسے میری ستّاریت کی معرفت ہوگی، اور باوجود میرے قادرِ مطلق ہونے کے انتقام نہ لینے سے میرے کرم اورحلم کی معرفت ہوگی، اور کبھی حد سے گزر جانے پر کسی سرکش قوم پر عذاب نازل کروں گااس وقت میرے ذوالانتقام اور شدید العقاب اور قہار ہونے کی معرفت ہوگی، اور یہ واقعات دوسری بستیوں کے لیے عبرت بنیں گے۔ علیٰ ہذاالقیاس سارے عالم میں میری ربوبیت کے ساتھ میرے تمام اسمائے حسنیٰ کا ظہور مخلوقات میں ہر وقت مشاہدہ کرکے میرے ربّ العالمین ہونے کی معرفت حاصل ہوجاوے گی۔ پس عالمِ ارواح سے دنیا میں بھیجنے کا اور بے شمار حاجتوں کے ساتھ پیدا کرنے کا مقصد محض یہی ہے کہ میرے بندے مجھ کو مع میری صفات کے پہچان لیں اور میری محبت کی دولت سے مالا مال ہوجائیں۔ یہ بات عالمِ ارواح میں روحِ محض کے لیے ممکن نہ تھی۔ نہ وہاں حاجات تھیں کہ بھوک،پیاس اور دوسری احتیاج سے