معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مولانا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے جلال الدین رومی! آپ نے میری روح پر اپنے انوار کا ایسا تسلط فرمادیا کہ میرا وجود کالعدم ہوگیا۔ اے کہ تو گویا شیرِ حق ہے، جس نے میری ہستی کو فنا کردیا ہے۔یعنی دفترِ سادس مثنوی کی تکمیل کی پیشین گوئی کے مطابق میرے قلب پر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پاک مضامین اور معارف کو القا کررہی ہے۔ پس یہ کلام بھی اگرچہ میری زبان سے نکلے گا لیکن وہ درحقیقت مولانا ہی کا کلام ہوگا،یعنی بمصداق ؎ گرچہ قرآن از لبِ پیغمبر است ہر کہ گوید حق نگفت او کا فراست مفتی الٰہی بخش صاحب بارھویں صدی کے آدمی ہیں اور مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ساتویں صدی کے ہیں۔مفتی الٰہی بخش صاحب نے ظاہری علوم کی تکمیل حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے کی تھی۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کا جب دنیا سے انتقال کا زمانہ قریب آیا تو قونیہ میں بڑے زور کا زلزلہ آیا اور چالیس دن تک اس کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ زمین بھوکی ہے، لقمۂ تر چاہتی ہے۔ چند ہی روز کے بعد مولانا علیل ہوئے، ۶۷۲ھ جمادی الثانی بروز یک شنبہ بوقتِ غروبِ آفتاب ہمیشہ کے لیے یہ آفتابِ علم و فضل غروب ہوگیا۔آفتابِ معرفت مولائے روم کا وقت ِغروب یعنی تذکرۂ وفات رات کو سامان کیا گیا اور صبح کو جنازہ اٹھا۔ بادشاہ سے لے کر فقیر و غریب تک سب ہمراہ تھے۔ لوگوں نے تابوت توڑ کر تبرّ کاً تقسیم کرلیا۔ اس قدر ازدحام اور ہجوم تھا کہ صبح کا جنازہ شام کو قبرستان پہنچ سکا۔ شیخ صدرالدین شاگرد حضرت شیخ محی الدین اکبر رحمۃ اللہ علیہ مع اپنے مریدین کے ہمراہ تھے۔ شیخ صدرالدین رحمۃ اللہ علیہ جب