معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حَقِیْقٌ بِالْمَرْءِ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ مَجَالِسُ ، یَخْلُوْا فِیْھَا وَیَذْکُرُ ذُنُوْبَہٗ فَیَسْتَغْفِرُ اللہَ مِنْہَا (ھَبْ) عَنْ مَسْرُوْقٍ مُرْسَلًا ؎ ہر شخص کو ضروری ہے کہ اس کے لیے متفرق طور پر ایسی مجلسیں بھی ہونی چاہئیں جس میں خلوت اختیار کرے اور ان میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے ان سے استغفار کرے۔ ہمارے مرشدِ پاک حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہلِ طریق اس کا فعلاً سخت التزام اور قولاً سخت اہتمام رکھتے ہیں کہ خاص خاص اوقات خلوت کے لیے خاص رکھتے ہیں، اور ان میں ذکر اور فکر میں مشغول رہتے ہیں، اور تجربہ سے اس کی خاصیت بیان فرماتے ہیں کہ مَنْ لَّا وِرْدَ لَہٗ لَاوَارِدَ لَہٗ (جس کے کچھ وِرد نہیں اس کے پاس کوئی وارد نہیں)مضامین کا القاء فی الجلوۃ تلقی فی الخلوۃ پر موقوف ہے نیز تجربہ ہوا کہ القاء فی الجلوۃ مشروط ہے تلقی فی الخلوۃ کے ساتھ، (یعنی جلوت میں مضامین ان ہی کو القاء ہوتے ہیں جو خلوت میں اپنا معتدبہ وقت ذکر وفکر میں گزارتے ہیں۔) اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے یا خوف سے بہہ پڑیں تو قیامت کے دن جب کہ شدّتِ تپش سے لوگوں کے سر کھولتے ہوں گے۔اللہ کی محبت میں گریہ و زاری حق تعالیٰ پکاریں گے کہ کہاں ہیں وہ بندے جو مجھے تنہائی میں یاد کرکے رویا کرتےتھے؟ وہ میرےعرش کےسائےمیں آجائیںرَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا، فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ؎ حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ------------------------------