معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
وہ بندے مستثنیٰ ہیں جن پر جذب طاری ہوگیا اور وہ غلبۂ حال میں دنیا کو لات مار کر بالکل اللہ کے ہوگئے ؎ تابِ زنجیر ندارد دلِ دیوانۂ ما ہمارا دیوانہ دل اب زنجیر کی قید برداشت نہیں کرسکتا۔ اللہ کی محبّت میں ایسے دیوانے ہوگئے کہ اپنا وطن اور ملک اور سلطنت سب کچھ اُن پر سرد ہوگیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎ اے جانِ جہاں حور نہ اچھی نہ پری خوب ہے میری نگاہوں میں تری جلوہ گری خوبجذب کی تعریف حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اَللہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾ ؎ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اس کو اپنے تک رسائی دیتے ہیں اسی کھینچ لینے کا نام جذب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہورِ نبوّت سے قبل غارِ حِرا تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن عبادت میں مصروف رہتے، ارشاد فرماتے ہیں:حُبِّبَ اِلَیَّ الْخَلَاءُ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب ظہورِ نبوّت کا زمانہ قریب ہوا تو مجھے خلوت محبوب کرادی گئی۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ پر جب اللہ تعالیٰ کی محبّت نے اثر کیا تو تخت و تاج کو خیر باد کہہ کر نیشاپور کے جنگل میں دس برس تک مصروفِ عبادت رہے۔ دنیا سے دل اچاٹ ہوجانا اللہ کی طرف راستے کا اوّل قدم ہے۔ جس کو حق تعالیٰ اپنا بنانا چاہتے ہیں تو اس پر دنیائے فانی اور اس کی لذّتِ فانیہ ------------------------------