معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں حق تعالیٰ کی رضا کے لیے تلوار چلاتا ہوں، بندۂ حق ہوں، بندۂ تن نہیں ہوں۔ شیرِِ حقّم نیستم شیرِِ ہوا فعلِ من بردینِ من باشد گوا میں شیرِِِ حق ہوں، شیرِ ہوائے نفس نہیں ہوں، میرا فعل میرے دین کی حقانیت پر گواہ ہے ۔ نقشِ حق را ہم بامرِ حق شکن برزجاجہ دوست سنگ دوست زن نقشِ حق کو (یعنی مخلوقاتِ الٰہیہ کو) امرِ حق سے توڑو، دوست کے شیشے کو دوست ہی کے پتھر سےیعنی امرِ حق سے توڑدو، اپنے نفس سے نہیں۔حضرت حاجی صاحب کی شانِ عبدیت حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مکّہ میں مولانا رحمت اللہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! ترکی کے سلطان کے یہاں تشریف لے چلیے۔ مولانا رحمت اللہ صاحب کو سلطانِ ترکی بہت مانتا تھا۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو جواب ارشاد فرمایا ہے اس میں عجیبِ شانِ عبدیت ہے، فرمایا کہ’’بھائی! فقیر کا جانا مناسب نہیں، البتہ سلطانِ عادل کی دعا مقبول ہوتی ہے، تو آپ میرا سلام کہہ دیجیے گا، اسی جواب میں دعا بھی ہوجاوے گی۔‘‘ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس جواب میں استغنا کا بھی حق ادا فرمایا اور دعا کی طلب اور احتیاج ظاہر فرماکر اپنے نفس کا بھی قلع قمع کردیا، تاکہ یہ استغنا محمود ہو، خلطِ تکبّر سے استغنائے مذموم نہ ہوجاوے۔ بے سمجھ سالک اگر اس کے پاس کوئی امیر ملنے کو جاوے تو اس کے ساتھ بدخلقی سے پیش آتا ہے اور اسی کو کمال سمجھتا ہے۔ عارف سالک کی نظر اس حدیث پر ہوتی ہے: