معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
پردے مٹتے چلے جاتے ہیں۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ می گریزد ضدّہا از ضدّہا شب گریزد چوں برافروزد ضیا مولانا فرماتے ہیں کہ ’’ہر ضد اپنی ضد سے بھاگتی ہے، جب دن روشن ہوتا ہے تو رات راہِ فرار اختیار کرتی ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ ذکر کے انوار جب دل میں آتے ہیں تو دل کی تاریکیاں انوار سے متبدل ہوجاتی ہیں، اور پہلے جب دل تاریک تھا تو افکار بھی تاریک پیدا ہوتے تھے، اور اب نورانی قلب میں افکار بھی نورانی پیدا ہوتے ہیں، افکارِ ظلمانی کیا ہیں؟ جو آخرت کی دائمی زندگی سے غافل کردیں، اور صرف چند روزہ حیاتِ دنیویہ کے نقش و نگارِ فانیہ کو مقصود بنادیں۔افکارِنورانی کیا ہیں؟ جو دنیائے بے ثبات کے رُخ سے نقابِ فریب ہٹادیں، اور مبلغِ علم کو حیاتِ اخرویّہ تک پہنچادیں۔ذکر سے فکر کا جمود دور ہوتا ہے ذکر سے قوّتِ فکریہ کا جمود دور ہوتا ہے، اسی کو حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ایں قدر گفتیم باقی فکر کن فکر گرجامِد بو در و ذکر کن ذکر آرد فکر را در اہتزاز ذکر را خورشید ایں افسردہ ساز مطلب یہ ہے کہ اگر فکر جامد ہے تو اس کو حرکت میں لانے کے لیے ذکر اختیار کرو۔ فکر ِافسردہ کو خورشیدِ ذکر سے گرم کرو۔ حق تعالیٰ نے یَذۡکُرُوۡنَ اللہَ کو یَتَفَکَّرُوۡنَ پر مقدم فرمایا ہے،ارشاد فرماتے ہیں: یَذۡکُرُوۡنَ اللہَ قِیَامًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ