معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
پس انسان کا یہ جسم جو بمشابہ ایک قلعے کے ہے، زمانۂ امن میں یعنی موت سے قبل آنکھ، ناک، کان اور زبان کے ذریعے ہر وقت خواہشاتِ نفسانیہ کے مطابق فانی لذتوں سے انتفاع میں مست اور بے فکر ہے، جب موت آنکھ، ناک، کان اور زبان کے ذریعے آنے والی لذتوں کے راستوں کو کاٹ دے گی تو اس وقت اُس کی روح سخت اضطراب میں مبتلا ہوگی، کیوں کہ اس نے زندگی میں اپنے وطن کے اندر کوئی چشمہ تعلق مع اللہ کا نہیں قائم کیا تھا کہ جس سے رو ح کو اس وقت اُنس اور سکون حاصل ہوتا۔اگر طاعات میں اس نے کچھ بھی کوشش کی ہوتی تو آج وہ کوششِ بیہودہ بھی جو کہ بوجۂ نقصانِ عبدیت مثل چشمۂ شور کے ہے،اس وقت میں ان سینکڑ وں جیحونِ شیریں یعنی لذّاتِ فانیہ سے جو بذریعۂ حواسِ خمسہ اندر داخل ہورہی تھیں بہتر ہوتی ؎ کوششِ بیہودہ بہ از خفتگی دوست دارد دوست ایں آشفتگی اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ قاطع الاسباب لشکر ہائے مرگ ہمچوں وے آید بقطعِ شاخ و برگ ایک دن موت کے سپاہی تمام اسبابِ لذت کو قطع کرنے والے ہیں اور مثل دیو کے شاخ اور برگ کو قطع کرکے بہار ہستی کو خزاں سے بدلنے والے ہیں۔ خوب بیان فرمایا ہے ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ؎ رنگ رلیوں پہ زمانے کے نہ جانا اے دل یہ خزاں ہے جو باندازِ بہار آئی ہےدنیا کا گھر دھوکے کا گھر کیوں ہے؟ زاں لقب شد خاک را دار الغرور کو کشد پار اسپس یوم العبور