معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
وَاصۡبِرْ کا عنوان بتاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی مذاق تبتّلِ تام کا تھا، یعنی تمام مخلوق سے منقطع ہوکر حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول رہنا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ پاک سے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تربیت اور تزکیہ کے لیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں مجالست یعنی نشست کا حکم فرمانا اور وَاصْبِرْ کے عنوان سے یعنی مجاہدہ کراکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان نشست فرمانے کا حکم نازل فرمانا صحبت کی ضرورت کو کس قدر مؤ کد کرتا ہے۔ مقصود اس امر سے یہ تھا کہ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم محمدی پھول میں بس جائیں، اور پھر منتشر ہوکر اقصائے عالم میں آپ کی خوشبو کو پھیلائیں، اور سارا عالم نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے منوّر ہوجائے، اور اَلَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ سے حق تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ کاملین کی صحبت کا کامِل اثر ان ہی پر ہوتا ہے جو ذکر کے پابند ہوتے ہیں،ذکر کے انوار سے شیخِ کامل کے اخلاقِ حسنہ کو جذب کرنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔مذاقِ تبتّل شیخِ کامل کی خاص علامت ہے اس آیت وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ سے معلوم ہوا کہ شیخِ کامل کا مقام تبتّل کا ہے، یعنی اس کی نسبت مع اللہ اس درجہ قوی ہو کہ خلق میں چلنا پھرنا اورنشست کرنا بتکلف اور جبرِ نفس سے ہو، اصلی غذا اس کی خلوت مع اللہ اور غلبۂ ذکر ہو، لیکن امرِ الٰہی سمجھ کر خلق کو تعلیم و ہدایت کرتا ہو، حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں: وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۸﴾؎ اے ہمارے رسول!آپ اپنے رب کے نام کو یاد کیجیے، اور خلق سے بالکلیہ یک سو ہوکر اسی کی طرف متوجہ رہیے۔حق تعالیٰ شانٗہ کی عجیب رحمت ہے، کہ جہاں جس بات کا حکم فرماتے ہیں وہیں اس کے حصول کا طریقہ ارشاد فرمادیتے ہیں۔ یہاں تبتّل سے پہلے ذکرِاسمِ رب کا امر فرماکر بتادیا کہ یہ مقام یعنی میری ------------------------------