معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
لڑکا بالغ ہوکر کافر ہوتا، اور ماں باپ پر اس کی طغیانی اور سرکشی کا اثر پڑتا، اور ماں باپ نیک ایمان دار تھے، اس لیے حق تعالیٰ نے والدین کی راحت کی خاطر اس لڑکے کے قتل کا حکم فرمایا۔ یہ وجہ تو خود حضرت خضر علیہ السّلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اشکال ظاہر کرنے پر بیان فرمائی تھی، لیکن صاحبِ ’’تفسیر علی مہائمی‘‘اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر یہ معاملہ خود گزر چکا تھا، کیوں کہ ایک مظلوم اسرائیلی کی حمایت میں ایک قبطی شخص کو ایک ایسا گھونسہ رسید کیا کہ اس کا کام ہی تمام ہوگیا۔ فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ تو موسیٰ نے اس کو ایک گھونسہ مارا سو اس کا کام ہی تمام کردیا۔ یعنی اتفاق سے وہ مر ہی گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اس خلافِ توقع نتیجے سے بہت پچھتائے اور عرض کیا: رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ فَاغۡفِرۡ لِیۡ فَغَفَرَ لَہٗ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۶﴾؎ اے میرے پروردگار!مجھ سے قصور ہوگیا،آپ معاف کردیجیے۔ سو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ بلاشبہ وہ غفور رحیم ہے۔حضرت موسیٰکی عبدیتِ کاملہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے جس شخص کو گھونسہ مارا تھا وہ فرعونی تھا ،بوجۂ حربی ہونے کے اس کا قتل مباح تھا۔ نیز ارادہ محض تادیب کا تھا قتل کا نہ تھا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی عبدیتِ کاملہ نے خلافِ اولیٰ کو کمالِ خوف سے گناہ سمجھا، کیوں کہ اَوْلیٰ یہ تھا کہ زیادہ زور سے گھونسہ نہ مارا جاتا، پس خلافِ اَوْلیٰ کو کمال خشیتِ الٰہی سے معصیت سمجھ کر عرض کیا:’’ اے میرے پروردگار! مجھ سے قصور ہوگیا۔‘‘ تیسرا اشکال، دو یتیم بچوں کی دیوار کو جو عن قریب منہدم ہونے کو تھی جب حکمِ الٰہی سے حضرت خضر علیہ السّلام نے درست کردیا تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ بدون عوض یہ کام کیوں کیا۔ جب کہ ہم دونوں بھوک سے پریشان ہیں: ------------------------------