معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تم میں سے کوئی مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک اپنی تمام خواہشات کو میرے لائے ہوئے احکامِ خداوندی کے تابع نہ کردے۔ اسی تابع کردینے کا نام فنائیت ہے۔اور عادتِ الٰہیہ یہی ہے کہ یہ دولت بغیر کسی پِیر کامل کی صحبت کے میسّر نہیں ہوتی، حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہ دولت یعنی فنائیت کیسے حاصل ہوئی تھی، اس کا جواب خود لفظ صحابی میں موجود ہے، صحابی کا لفظ سُن کرذہن منتقل ہوجاتا ہے کہ صحبت یافتۂ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اسی کو حضرت عارف رومی فرماتے ہیں ؎ نفس نتواں کُشت الّا ظِلِ پِیر دامنِ آں نفس کُش راسخت گیر حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نفس نہیں فنا ہوتا ہے مگر پیرِ کامل کے سایہ سے پس اُس نفس کُش کا دامن مضبوط پکڑلو۔مرنے سے پہلے مرجانے کا مطلب مُوْتُوْاقَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا مرجاؤ مرنے سے پہلے عُدَّ نَفْسَکَ مِنْ اَھْلِ الْقُبُوْرِ اپنے نفس کو اہلِ قبور میں سے شمار کرو۔ ان دونوں حدیثوں کا یہی مفہوم ہے جو مذکور ہوا، یعنی اپنی مرضیاتِ نفسانیہ کو مرضیاتِ الٰہیہ کا غلام بنادیا جائے۔ جس طرح وہ چاہیں تصرّف فرمائیں، جہاں ان کی مرضی ہو وہیں اپنی خواہش پر عمل ہو، اور جہاں ان کی مرضی نہ ہو اس خواہش کے تقاضے پر عمل نہ کریں، اور صبر کرلیں ؎ نظر کو اپنی جو اُن کی نظر نہ بنا سکے وہ ہائے پردے کو جلوہ کبھی بنا نہ سکے