معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
بضرورت حفاظتِ جان کھانا اور بات ہے) اور نہ کسی گھر میں سایہ ڈھونڈنے کے لیے داخل ہو، اور جنگلوں کی طرف نکل جاؤ اپنے سینے کوٹتے ہوئے اور اپنی جانوں پر (یعنی اپنی حالت پر) رویا کرو۔ روایت کیا اس کو ابن ِعساکر نے ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔ جس وقت حق تعالیٰ نے اِتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ؎ کی آیت نازل فرمائی یعنی ’’ڈرو اللہ سے جیسا کہ حق ڈرنے کا ہے۔‘‘ اس وقت حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر جو کیفیت طاری ہوئی اس کو ان ہی کا دل جانتا ہے، گھبراتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!ڈرنے کا حق ہم سے کیسے ادا ہوسکتا ہے۔ مارے خوف کے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایک کہرام مچ گیا۔ حق تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اس آیت کی تفسیر میں دوسری آیت نازل ہوئی، ارشاد فرمایا: فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ ؎ اللہ سے ڈرتے رہو اپنی استطاعت کے مطابق یعنی جتنا تم سے ڈرنے کا حق ادا ہوسکتا ہے اس قدر سعی اور کوشش میں کوتاہی نہ کرو۔ لیکن اس استطاعت میں مراتب ہوتے ہیں،جس طرح انوارِ نبوت،انوارِ صدیقیت،انوارِ شہادت،انوارِ صالحیت میں فرقِ مراتب ہے، اسی طرح ان بندوں کے آثارِ استطاعت میں باعتبارِ قوت اور ضعف کے فرق ہوتا ہے، لیکن یہ فرق ان کے اُوپر والوں کے اعتبار سے ہوتا ہے، نیچے والوں کے لیے تو یہ ہر حال میں مقتدیٰ اور ہادی ہیں۔ سورۂ فاتحہ میں ان ہی نورانی بندوں سے سیدھا راستہ طلب کرنے کی تعلیم ہے، جس کی ترکیب اور تدبیر بھی فرمادی ہے، وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ ا ور یہ نبیّین ، صدّیقین، شہداء، صالحین بڑے اچھے رفیق ہیں۔اولیاء اللہ کی رفاقت کے بغیر دین نہیں ملتا رفیق فرماکر اللہ تعالیٰ نے طریقہ بتادیا کہ ان سے دین اس وقت ملے گا جب ------------------------------