معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخۡبَتُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ ۙ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۳﴾؎ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے عمل کیے اور اپنے رب کی طرف جھکے ایسے لوگ اہلِ جنّت ہیں اور وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اَخْبَتُوْا کی ضمیر عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اور اٰمَنُوْا دونوں سے متعلق ہے، یعنی ایمان کے ساتھ بھی اخبات کی کیفیت ملی ہو اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ بھی اخبات کا تعلق ہو، قرآنِ کریم میں جہاں جہاں ایمان اور اعمالِ صالحہ کا تذکرہ ہے وہاں وہاں یہ قید اخبات بھی ملحوظ ہے، تفسیر کا یہ اصول ہے کہ جب ایک حکم کسی جگہ مقید ہوگیا تو جہاں جہاں وہ مطلق بھی مذکور ہوگا اس قید سے مقید سمجھا جائے گا۔استحضارِ عظمتِ الٰہیہ جس شخص پر جس درجہ عظمتِ الٰہیہ کا استحضار ہوگا اسی قدر اس کا اخبات بھی قوی ہوتا ہے۔ دنیا میں اس کا نمونہ موجود ہے، کہ جب کسی بڑے حاکم کے سامنے معمولی آدمی کھڑا کردیا جاتا ہے تو خوف کے مارے کانپنے لگتا ہے، عجیب سکتہ سا طاری ہوجاتا ہے۔ پس جن بندوں نے اللہ تعالیٰ کو جو احکم الحاکمین ہے پہچان لیا ہے ان پر اللہ کی کبریائی سے اور اپنی بندگی اور عاجزی سے ایک عجیب کیفیت تواضع اور فنائیت کی طاری رہتی ہے۔حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا ؎ رحمٰن کے محبوب اور مقبول بندوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ زمین پر نہایت مسکنت اور عبودیت سے چلتے ہیں۔ ان کی چال سے ھَوْن یعنی غلامی کی شان ٹپکتی ہے۔ھَوْنًا، ھَوْن لغت میں ذلّت ------------------------------