معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
راحت اور تکلیف کا پہنچانے والا درحقیقت اللہ ہے، جو راحت کسی کو پہنچتی ہے وہ اس کا احسان ہے اور جو تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے گناہوں کی نحوست ہے۔ اس صورت میں آیت کُلٌّ مِّنْ عِنْدِاللہِ اور وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ دونوں میں مطابقت ہوگئی، یعنی سختی کی نسبت آدمی کی طرف اس لیے ہوئی ہے کہ اس کے گناہوں کی نحوست پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے نسبت کی گئی کہ ہر چیز میں اس کا حکم چلتا ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادرصاحب محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ بندے کو چاہیے نیکی کو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تقصیر سے۔ بعض لوگوں کو وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَسے شبہ ہوتا کیوں کہ اس آیت میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہاری مشیت ہماری مشیت کے تابع ہے۔ تو اس کا جواب ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دیا ہے کہ مشیتِ عباد معلول ہے مشیتِ رب سے اور بندوں کے افعال بمشیتِ بندہ کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ مشیتِ ثانوی افعالِ عباد کی علتِ قریبہ ہے اور مشیتِ رب علّتِ بعیدہ ہے اور یہ نسبت علّتِ قریبہ ہی کی طرف کرتے ہیں۔ فرقۂ قدریہ کی نگاہ محض مشیتِ اولیٰ پر ہوئی اور جبریہ کی نگاہ مشیتِ ثانیۂ محض پر ہوئی۔یہ دونوں فرقے گمراہ ہیں۔ مذہبِ حق وہی ہے جو جامع ہے، اور ناظر ہے دونوں مشیتوں پر۔یہ ایک علمی تحقیق ہے جو صرف اہل ِعلم کا حصہ ہے۔عبادالرَّحمٰن کی پہچان کی تیسری صفت عبادالرحمٰن یعنی ان باخبر بندوں کی دو صفتوں کا بیان ہوچکا تھا، ایک صفت تو یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا یعنی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ دوسری صفتاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ﴿۶۳﴾جب ان سے جہالت والے لوگ بات کرتے ہیں تو وہ رفعِ شر کی بات کہتے ہیں۔ تیسری صفت حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَالَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ان باخبر بندوں کی تیسری پہچان یہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدہ اور قیام یعنی نماز میں لگے رہتے ہیں۔