معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہے اور پھل پھول سے مراد کون سا پھل پُھول ہے؟ تو فرماتے ہیں کہ دنیا میں ڈر کر رہنا، صراطِ مستقیم سے قدم ہٹنے نہ پائے، گوشۂ چشم کو بھی بچانا کہ کہیں ملوّث نہ ہوجائے، کانوں کو بچانا بُری باتوں کے سننے سے ، لب و لہجے کو بچانا کہ اینٹھ مروڑ اور تکبّر نہ شامل ہو، آنکھوں کا تیور کے بدلنے میں نگاہ رکھنا کہ انانیت کی شان نہ پیدا ہوجائے، ہر حرکت وسکون میں، ہر سانس میں ڈرنا کہ کہیں اس بات سے میاں ناراض نہ ہوجائیں، اسی کا نام آخرت کی کھیتی ہے۔مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ کھیتی کی مثال سے عجیب بات بتادی کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، بیج گھر سے نکالا گیا، لیکن کھیت میں اس کی ترقی ہوگی، جب ایک بیج سینکڑوں دانے اور پھل پھول اپنے اندر دیکھتا ہے تب اس کو ہجر کی مصلحت معلوم ہوتی ہے۔ پس اس خوف اور ڈر سے جو ہر وقت جائز و ناجائز حلال و حرام کی فکر لگی ہوئی اسی کی بدولت ولایت عطا ہوتی ہے۔ اسی تقوے کی برکت سے اس بیج میں کیسے کیسے پھل لگتے ہیں، کوئی صدیق ہورہا ہے، کوئی فاروق ہورہا ہے، کوئی غوث ہورہا ہے۔ اسی ڈر سے کیسے کیسے ابدال، اقطاب، اوتاد،نجباء، نقباءان ہی انسانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ تقوے کی صفت ایسی صفت ہے جو نبوّت اور ولایت دونوں کے اندر مشترک ہے، لیکن نبوت کے ساتھ اضطراری ہے اور ولایت کے ساتھ اختیاری ہے۔عالمِ ارواح میں تقویٰ کے اسباب نہ تھے عالمِ ارواح میں اس ڈر کا تحقق نہ ہوتا، کیوں کہ وہاں تقویٰ کے اسباب نہ تھے۔ تقویٰ کے اسباب کیا ہیں؟ شہواتِ نفسانیہ ہیں۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است کہ ازو حمامِ تقویٰ روشن است عالم ارواح میں جب اعضاءہی نہ تھے تو اعضاء کی خواہشات کہاں سے ہوتیں؟ اگر ایک اندھا کہے کہ میں نے کبھی کسی اجنبیہ عورت پر بُری نگاہ نہیں کی، تو اس کا یہ قول اس کے تقوے کے لیے دلیل نہ ہوگا، کیوں کہ اس کے پاس نہ تو اچھی نگاہ ہے نہ بری نگاہ ہے،