معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
پھر حق تعالیٰ نے صِفتِ ربوبیت کے ساتھ ارشاد فرمایا: ثُمَّ اجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیۡہِ وَ ہَدٰی ﴿۱۲۲﴾؎ پھر اُن کے ربّ نے مقبول بنالیا ، سو اُن پر توجہ فرمائی اور راہ پر قائم رکھا۔ ربوبیتِ الٰہیہ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ندامت اور زاری کی راہ سے آپ کی شایانِ شان مرتبۂ عبدیت پر پہنچاکر اس پر خلافت کا تاج رکھ دیا۔اتنے مراحل سے گزار کر خلیفۃ اللہ فی الارض کی پگڑی دے دی گئی تھی۔ کیسے کیسے امور راہ میں پیش آجاتے ہیں۔جس کو مقتدا بناتے ہیں اس کو خوب پختہ کرکے بناتے ہیں تب دوسروں کی رہبری سپرد فرماتے ہیں۔ اب جب سب کام مکمل ہوگیا، یعنی گریہ و زاری سے تربیتِ خاص کی نگرانی میں حضرت آدم علیہ السّلام کی عبدیت کامل اور اکمل ہوکر تاجِ خلافت سے مشرف ہوگئی تو حکمتِ الٰہیہ کا تقاضا ہوا کہ اب آپ کی تسلّی فرمادی جائے، کیوں کہ غلبۂ حزن کی حالت میں بر بنائے بشریت خلافت کا کام کماحقہ انجام دینے سے اعضا قاصر رہتے۔لوازمِ بشریہ کا انفکاک کاملین سے بھی نہیں ہوتا ہے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوازمِ بشریہ کا انفکاک کاملین سے بھی نہیں ہوتا ہے، اسبابِ خوشی و رنج سے کاملین بھی متأثر ہوتے ہیں، ورنہ جو حکمتیں طبائعِ بشریہ سے متعلق ہیں مثلاً مسرّت پر شکر اور رنج پر صبر و رضا وغیرہ فوت ہوجائیں۔ پس ضرورت ہوئی کہ اب آپ کی تسلی فرماکر آپ کا غم بھلادیا جائے اور انبساط کے ساتھ کارِ خلافت کی انجام دہی میں لگ جائیں۔ چناں چہ ارشاد فرماتے ہیں:فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا ۔ ’’آپ کا عصیان تو نسیان تھا، ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ کے قلب میں اس چُوک کا ارادہ نہ تھا۔‘‘ دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض طبائع اپنی شرافت کی بنا پر آقا کی ناراضگی ------------------------------