معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
علماء کے لیے وجودِ صانع پر عقلی دلیل اس استدلالِ عقلی کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ یہ اشیائے مذکورہ سب ممکن الوجود ہیں، بعض تو بداہتاً بسبب مشاہدہ وجود بعد العدم کے یا تغیّروتبدّلِ احوال کے اور بعض ترکیب من الاجزاء یاافتقار ا لبعض الی البعض کے اور ممکن بوجہ متساوی الوجود والعدم ہونے کے محتاج ہوتا ہے کسی مرجح کا،وہ مرجح اگر ممکن ہے تو اس میں پھر یہی کلام ہوگا، تو قطع تسلسل محال کے لیے انتہا واجب ہے کسی واجب الوجود کی طرف، یہ تو دلیل ہے وجودِ صانع کی۔علماء کے لیے توحید پر عقلی دلیل آگے اس کا واحد ہونا سو اس کی تقریر یہ ہے کہ اگر نعوذ باللہ!متعدد مثلاً دو معبود فرض کیے جاویں تو ان میں سے کسی کا عاجز ہونا ممکن ہے یا دونوں کا قادر ہونا ضروری ہے شقِ اوّل محال، کیوں کہ عجز منافی ہے وجوبِ وجود کے اور شقِ ثانی پر اگر ان میں سے ایک نے کسی امر کا مثلاً ایجادِ زید کا ارادہ کیا تو دوسرا اس کے خلاف کا ارادہ کرسکتا ہے یا نہیں اگر نہیں کرسکتا تو اس کا عجز لازم آئے گا جو منافی ہے وجوبِ وجود کے،اور اگر کرسکتا ہے تو اس پر ترتب مراد کا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ضروری نہیں تو تخلف مراد کا ارادہ قادرِ مطلق سے لازم آئے گا جو کہ محال ہے، اور اگر ضروری ہے تو مختلف مرادوں کا اجتماع لازم آوے گا، کیوں کہ ایک واجب کے ارادے پر ایک مراد مرتّب ہوئی اور دوسرے واجب کے ارادے پر دوسری مراد اُس مراد ِاوّل کی ضد مرتّب ہوئی اور اجتماعِ ضدّین لازم آیا اور یہ محال ہے۔ اور امر مستلزم محال کو محال ہے۔ تو تعدّد واجب کا محال ہے۔ پس وحدت واجب ہے اور وہی مطلوب تھا، خوب سمجھ لو۔ اس دلیل کو حق تعالیٰ نے سورۂ انبیاء لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنْ؎ میں ارشاد فرمایاہے، یعنی ------------------------------