معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
فضل ہے کہ میرے رفیق اس درجے کو پہنچے، جن سے کرامت ہونے لگی۔ ‘‘ ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ سے مراد خود حضرت سلیمان علیہ السّلام ہیں۔عارفین اپنے اعمالِ حسنہ کو عطائے حق سمجھتے ہیں عارفین کی یہی شان ہوتی ہے کہ ان کو جو کچھ بھلائیاں پہنچتی ہیں یا اُ ن سے جو کچھ اچھے اعمال صادر ہوتے ہیں ان کو اللہ کی عطااور انعام سمجھتے ہیں، اپنے نفس کی طرف منسوب نہیں کرتے ہیں، اسی وجہ سے ان کو اپنی تکثیرِ عبادت و نوافل پر کبھی ناز نہیں پیدا ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ؕ؎ اے انسان! تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیش آتی ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آتی ہے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔ عارفین پر اس تعلیم کی وجہ سے ہر وقت ادب کی خاص شان غالب ہوتی ہے۔حضرت خضر کاادب حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی توڑنے کے فعل کو اپنی طرف منسوب فرمایا: اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا ﴿۷۹﴾ ؎ وہ جو کشتی تھی سو چند غریب آدمیوں کی تھی، جو اس کے ذریعے سے دریا میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے اور اس پر ان کی گزر اوقات ہوا کرتی تھی، سو میں نے چاہا کہ ------------------------------