معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
انسان کے اندر تصرّفاتِ الٰہیہ انسان جو غذا کھاتا ہےحلق سے نیچے اتارنے تک تو اس کے اختیار کو دخل ہوتا ہے، پھر جب غذامعدے میں داخل ہوگئی تو اب اس غذا میں کیا کیا تصرّفات اور تبدیلیاں ہوتی ہیں، انسان کو ان تبدیلیوں کی مطلق خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے اندر پھر کیا ہوتا ہے۔ اب حق تعالیٰ کی قدرت پر غور کیجیے کہ اسی غذا سے جسم کے تمام اعضا کے مزاج کے مطابق ہر ایک کو الگ الگ غذا پہنچاتے ہیں، یعنی لطیف اعضا کے لیے لطیف اجزائے غذائیہ کو اور کثیف اعضاکے لیے کثیف اجزائے غذائیہ کو علیحدہ علیحدہ پہنچادیتے ہیں۔ حکم ہوتا ہے کہ فلاں فلاں غذا کے ذرّات! تم آنکھوں کی بینائی بن جاؤ، فلاں فلاں غذا کے ذرّات! تم کانوں کی شنوائی بن جاؤ، فلاں فلاں ذرّات! تم دماغ میں عقل اور فہم بن جاؤ، فلاں فلاں ذرّات! تم پیشاب اور پاخانہ بن کر نکل جاؤ۔ ہر وقت حق تعالیٰ کی ربوبیت کام کررہی ہے۔ ہر سانس میں ان کی ربوبیت کا تعلق ہے۔ جب ہم بولتے ہیں تو ان ہی کی ربوبیت سے بولتے ہیں۔ جب چلتے ہیں تو ان ہی کی ربوبیت سے چلتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں تو ان ہی کی ربوبیت سے دیکھتے ہیں۔ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ میں جو سبق پڑھا یا تھا اسی کا ہر وقت تکرار ہورہا ہے۔ اگر ایک لمحےکو ان کی ربوبیت کا تعلق منقطع ہوجائے تو اسی وقت ہم ہلاک ہوجائیں اور ہمارے عناصر بکھر جائیں۔ یہ ربوبیت ایسی بدیہی یعنی کھلی ہوئی وحدانیت کی دلیل ہے جس کو ہر وقت ہم اپنے اندر دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم سوتے ہیں تو ان ہی کی ربوبیت ہم کو سلاتی ہے اور جب جاگتے ہیں تو ان ہی کی ربوبیت ہم کو جگاتی ہے۔ جب روح نکال لیتے ہیں تو پھر ہم سائنس کے ذریعے کیوں نہیں چل لیتے اور ہماری زبان روح نکلنے کے بعد پھر گویا کیوں نہیں ہوجاتی، بڑے بڑے اہلِ سائنس جب سائیں سائیں کرکے مرنے لگتے ہیں تو اپنی روح کو جسم میں کیوں نہیں روک لیتے؟اتنے دلائل سامنے رکھ کر تب فرماتے ہیں: