معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما جن کے دل اللہ کے عشق سے زندہ ہوگئے وہ کبھی نہیں مرتے ہیں۔ اس جسمِ خاکی سے تعلق منقطع ہونے کے باوجود روح کے اندر جو عشق مع الحق ہوتا ہے اس کی حیاتِ دوامی صفحۂ تاریخِ عالم پر مثل نقشِ غیر فانی کے ہوتی ہے۔دنیا کی بے ثباتی پر ایک عجیب تمثیل اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک قلعہ ہے اور زمانۂامن میں اس قلعے کے اندر بہت سی نہریں لذّات اور خواہشات کی باہر سے آتی ہوں، تو زمانۂ امن میں اہلِ قلعہ ان نہروں سے لذّات حاصل کرکے مست و شاداں ہوں گے، لیکن جب دشمن کی فوج اس قلعے کا محاصرہ کرکے نہروں کے راستوں کو باہر سے بند کردے اس وقت ایک قطرہ پانی کے لیے اہلِ قلعہ ترس جائیں گے۔ اگر عاقبت اندیشی سے اہل ِ قلعہ نے زمانۂ امن میں ایک کھاری چشمہ بھی قلعے کے اندر کھود لیا ہوتا تو اس وقت ہلاکت سے بچ جاتے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؎ آں زماں یک چاہ شورے از دروں بہ زصد جیحونِ شیریں از بروں اس وقت میں یہ چشمۂ شور جو قلعے کے اندر ہوتا سینکڑوں اُن جیحون شیرین جیسے دریا سے بہتر ہوتا جن کا تعلق قلعے کے باہر سے ہے۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تمثیل کے بعد انسان کے جسم کو ایک قلعے سے تشبیہ دی ہے اور آنکھ، ناک، کان، زبان وغیرہ سے دیکھنے، سو نگھنے، سننے اور چکھنے کے ذریعے جو لذتیں باطن تک محسوس ہوتی ہیں ان کو نہروں سے تشبیہ دی ہے، جو اس قلعے کے باہر سے اندر داخل ہورہی تھیں اور دشمن کی جس فوج نے قلعے کا محاصرہ کرکے بیرونی نہروں کا راستہ کاٹ دیا تھا وہ موت ہے۔