معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ترقی سے مانع سمجھتےہیں، اسی کو اقبال لاہوری نے کہا ہے ؎ خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے خاندان والوں کا جنازہ آئے دن قبرستان میں لے جاکر دفن کرتے ہیں اور کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ جسم جو دن رات میں نہ جانے کتنے لباس بدلتا تھا، گھر میں رہنے کا الگ لباس، دوستوں سے ملنے کا الگ لباس، دفتر میں جانے کا الگ لباس، پائخانہ میں جانے کا الگ لباس، نعوذ باللہ!یہ تہذیب ہے کہ منجانب اللہ تعذیب یعنی آلۂ عذاب ہے، جو جسم تکبّر سے یہ کہتا تھا کہ تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں، آج پتا چلا کہ آپ کون ہیں۔ایک متکبر کی حکایت ایک بزرگ نے کسی متکبر سے فرمایا کہ غرور سے مت چل، اس نے کہا: تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ فرمایا: ہاں جانتا ہوں، آپ پیدایش کے وقت ایک نجس پانی یعنی مَنی تھے، پھر مرنے کے بعد ایک گندہ مُردار ہوں گے، اور اس وقت تین چار سیر پائخانہ اپنے پیٹ میں لیے ہوئے چل رہے ہیں۔معافی کا غلط طریقہ متکبرین کا بھی عجب حال ہے، یہ اپنے قصور کا اعتراف بھی کرتے ہیں تو اس میں بھی متکبرّانہ انداز ہوتا ہے،کہتے ہیں کہ اچھا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ استغفراللہ!یہ الفاظ واپس لینے کا طریقہ خوب نکالا ہے، سوئی چبھوکر کوئی یہ کہے کہ اچھا صاحب! ناراض کیوں ہوتے ہیں، میں اپنی سوئی نکالے لیتا ہوں۔