معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تمام علوم کا حاصل پس تمام علوم کی رُوح یہی ہے کہ آدمی کی عاقبت اور آخرت کی زندگی درست ہوجائے ؎ جانِ جملہ علمہا این است ایں کہ بداند من کیئم در یومِ دیں مولانا ارشاد فرماتے ہیں کہ تمام علوم کی جان صرف یہی ہے کہ آدمی اپنے متعلق یہ جان لے کہ ہم آخرت کے بازار میں کس بھاؤ بکیں گے۔ دنیا والوں کی واہ واہ سے کچھ کام نہیں چلے گا، معاملہ تو میاں سے ہے اور وہ آنکھوں کی چوری اور سینوں کے اندر کی خیانتوں سے باخبر ہیں۔ یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ ﴿۱۹﴾؎ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی چوری کو جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جو سینوں میں پوشیدہ ہیں۔ یعنی اگر گوشۂ چشم سے بھی کسی عورت پر بُری نگاہ ڈالی ہےیا دل میں بُرے بُرے خیالات نافرمانیوں کے پکائے ہیں تو ان سب باتوں کی بھی اللہ تعالیٰ کو پوری پوری خبر ہے۔قارون کے زمانے کا ایک واقعہ قارون کے زمانے میں جو طبقہ ترقی پسند اورتعلیم یافتہ کہا جاتا تھااس نے قارون کےخزانے کو اور اس کی ظاہری شوکت و جاہ کو دیکھ کر یہ کہا تھا کہ یٰلَیْتَ لَنَامِثْلَ مَاۤاُوْتِیَ قَارُوْنُ؎ اے کاش! ایسا ہی خزانہ ہم کو بھی مل جاتا۔اور جو طبقہ اللہ والوں کا تھا ان کو دینی سمجھ اور علمِ صحیح کے انوار سے اس خزانۂ قارون کی صحیح حقیقت کا پتا چل گیا تھا، دین کی خوش فہمی سے انہوں نے خزانۂ قارون پر اللہ کا غضب ------------------------------