معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
عام طور پر ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَپر یہ اشکال اور خلجان لوگوں کو ہوا کرتا ہے کہ قرآن جب متقین کو ہدایت کرتا ہے تو ان کو ہدایت حاصل ہی ہے، ہدایت تو غیر متقین کو ہونی چاہیے، اشکال تقریرِ مذکورسے بفضلہٖ تعالیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے خوب واضح طور پر حل ہوجاتا ہے۔دوسرا عنوان ایک عنوان اس تقریر کا اور بھی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ کتاب حق تعالیٰ کی طرف سے ایک والا نامہ ہے اور والا نامہ دوستوں کے پاس بھیجا جاتا ہے دشمنوں کے پاس نہیں بھیجا جاتا، اور متقین بندے اللہ تعالیٰ کے غلام بھی ہیں اور دوست بھی ہیں۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب کے سب اللہ تعالیٰ کے مخلص اور جاں نثار بندے تھے، پس قرآن کی اوّل ہدایت ان ہی متقین دوستوں کے لیے ہے، اوّل مخاطب قرآنی آیات کے یہی حضرات تھے، پھر ان کی ہدایت کے صدقے میں دوسروں کو ہدایت ہوئی۔ یہ بہت علمی مقام ہے جس میں اکثر اہلِ علم بھی الجھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس مقام کی نہایت آسان تقریر میرے دل میں ڈال دی۔تیسرا عنوان سورۂ فاتحہ سے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کا عجیب ربط تیسرا عنوان یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ میں بندوں کی طرف سے حق تعالیٰ شانٗہ نے ہدایت کی درخواست نازل فرمائی ہے، کیوں کہ بڑے دربار سے جب کوئی چیز ملتی ہے تو کہتے ہیں: درخواست لکھ کر لاؤ، اس وقت کسی واقف کار سے جو اس حاکم کا ادب شناس ہوتا ہے خوشامدیں کرتے ہیں کہ ہماری عرضی کا مضمون لکھ دو۔ تو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کی عظمت اور جلالتِ شان کا ادب بندوں کو کہاں سے آسکتا تھا؟ وہاں تک تو ان کی عقل