معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہونے سے ڈرا ہوگا وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ اور نفس کو خواہش سے روکا ہوگا، فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾ سو جنت اس کا ٹھکانا ہوگی۔ معلوم ہوا کہ یہ خوف اس فکر کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا کہ ایک دن اپنے رب کے سامنے حساب کے لیے کھڑا ہونا ہے، پیشی کے دن کی فکر سے ڈر پیدا ہوا، اور بے خوفی کا سبب بے فکری ہے، چناں چہ ارشاد فرماتے ہیں: فَاَمَّا مَنۡ طَغٰی ﴿ۙ۳۷﴾وَ اٰثَرَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ۙ۳۸﴾ فَاِنَّ الۡجَحِیۡمَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۳۹﴾؎ جس شخص نے سرکشی کی ہوگی اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی سو اُس کا دوزخ ٹھکانا ہوگا۔ معلوم ہوا کہ آخرت کی زندگی سے غفلت اور بے فکری سے بے خوفی پیدا ہوئی ، اور یہ بے خوفی سبب بن گئی سرکشی کا۔ صحبتِ اہل اللہ تو اصلی جڑ ہے، اس کے بغیر نہ تو ذکر سے کام چلتا ہے نہ فکر سے۔بدون صحبتِ شیخ کام کرنے کے مہلکات کیوں کہ بدون صحبتِ شیخ کامل کے جس نے خودرائی سے ذکر شروع کیا وہ ناز اور تکبر سے ہلاک ہوا، نیز ذکر میں بعض وقت ایسی لذت اور کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ اگر شیخ کی طرف سے تعداد مقرر نہ ہو تو ذاکر رات دن بس ذکر ہی کرتا رہے، چناں چہ راہ برِ کامل کے سوا جن لوگوں نے ذکر شروع کیا انہوں نے اس کیفیت اور لذّت میں اس قدر ذکر کی تعداد بڑھادی کہ دل اور دماغ سب معطل ہوگئے، خشکی بڑھ گئی، نیند ختم ہوگئی، اختلاج کی بیماری لگ گئی، رفتہ رفتہ پاگل ہوگئے، لوگ ان کو مجذوب سمجھ گئے، اور یہ شخص خبط الحواس ہوکر، پاگل ہوکر خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ہوگیا۔ میرے چشم دید مشاہدات میں ایسے افراد ہیں جو بےچارے اناڑی پِیر کے حوالے ہوگئے اور تعدادِ ذکر میں ان کے پِیر نے مرید کی قوّت اور صحت کا لحاظ نہ رکھا، چند دن تو گاڑی چلی، پھر دیکھا کہ داڑھی منڈائے ہوئے فرض نماز وغیرہ کو بھی خیر باد کہہ کر بدحواس پھرنے لگے ۔ ایسے ایک صاحب میرے پاس بھی آئے بڑا ترس آیا، اللہ بچائے اناڑی پِیروں سے۔ ------------------------------