معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تھے، دیندار آدمی تھے اور بڑے ظریف الطبع تھے، صحبتِ اہل اللہ کی ترغیب میں نوجوان طبقے کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ؎ نہیں سیکھاانہوں نے دین رہ کر شیخ کے گھر میں پلے کالج کے چکّر میں مرے صاحب کے دفتر میں (اکبر الٰہ آبادی) حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار فرمانے پر جو تحقیق فرمائی ہےیہی تحقیق ہمارے حضرتِ والا کی بھی ہے، حضرت نے ’’تفسیر بیان القرآن‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ لِیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَمَا تَاَخَّرَمیں ذَنْب سے کیا مراد ہے.؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ؎ تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کردے‘‘ تو یہاں خطا سے مراد معصیت نہیں ہے، یہاں ذَنْب سے مراد ذنب مجازی ہے، کیوں کہ ہر نبی معصوم ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل عبادت تھا اور آپ کے لیے جس فعل کو ترک کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے تو اس فعلِ متروک سے دوسرا فعلِ مامور زیادہ عبادت تھی، پس جس عبادت سے اعلیٰ عبادت کی طرف آپ کو متوجہ فرمایا گیا تو اس اعلیٰ کے مقابلے میں ما سبق کو حق تعالیٰ شانٗہ نے مجازاً ذنب فرماکر اس کی مغفرت کی بشارت دے دی تاکہ آپ کو قلق نہ رہے، ورنہ ’’مقربّاں رابیش بود حیرانی‘‘ کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملولِ خاطر ہوتے۔حضرت آدم کا عصیان نسیان تھا حضرت آدم علیہ السَّلام کے متعلق حق تعالیٰ شانٗہ نے جو ارشاد فرمایا ہے کہ : وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ﴿۱۲۱﴾۪ۖ؎ ------------------------------