معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ارواحِ عارفین کی عظمت و جلالتِ شان عارفین کی عظمت و جلالتِ شان کی وضاحت کے لیے حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قصّہ بیان فرمایا ہے، وہ یہ کہ دریائی گائے یا بیل دریا سے گوہر نکال کر لاتا ہے اور سبزہ زار میں اس کو رکھتا ہے، اور اس کی روشنی کی مدد سے رات کو اس کے گرد چَرتا ہے، نورِ گوہر کی شعاع میں وہ دریائی گاؤ سُنبل اور سوسن وغیرہ جلدی جلدی چَرتا ہے، اس گاؤ آبی کا پس افگندہ یعنی پائخانہ عنبر ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی غذا نرگس اور نیلوفر وغیرہ لطیف اور خوشبو دار نباتات ہیں(یہ مشہور قول ہے اور اس میں اختلاف ہے)۔ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جب گائے بکری کا خوشبو کھانا سبب ہوتا ہے خوشبو حاصل ہونے کا تو جس کی روحانی غذا ذکر و طاعت کے انوار جلال ہوں اس کے لبوں سے کیوں کر نہ سحرِ حلال یعنی کلام مؤثر پیدا ہوگا ؎ ہر کہ باشد قوتِ او نورِ جلال چوں نزاید از لبش سحرِ حلال جس کی غذا نورِ جلال ہو کیوں کر اس کے لبوں پر سحرِ حلال پیدا نہ ہوگا۔ الغرض جب سبزہ زار میں رات کو وہ دریائی گاؤ اس گوہر کے نور میں اس کے گرد چَرتا رہتا ہے تو تاجر جو موتی کی تلاش میں وہاں جاتا ہے، اس گوہر پر سیاہ کیچڑ رکھ دیتا ہے،تاکہ وہ روشنی جو اس گوہر سے پیدا ہورہی تھی ختم ہوجائے اور سبزہ گاہ تاریک ہوجائے اور کیچڑ رکھتے ہی وہ تاجر فوراً درخت پر بھاگ جاتا ہے اور وہ دریائی گاؤ اس کو مضبوط سینگ لیے ہوئے ڈھونڈتا ہے، چند بار وہ گاؤ دریائی اس چراگاہ کے اطراف میں پھرتا ہےتاکہ اس مخالف تاجر کو سینگ میں لپیٹ کر ہلاک کردے، مگر وہ درخت پر مامون بیٹھا رہتا ہے، پس جب وہ گاؤ نراس سے نا امید ہوجاتا ہے، تو وہاں آتا ہے جہاں اس نے موتی رکھا تھا مگر وہاں آکر کیچڑ دیکھتا ہے جو درّ شاہ وار کے اوپر اس تاجر نے رکھ دیا تھا، پس کیچڑ دیکھ کر وہ گاؤ دریائی بھاگ جاتا ہے اور تاجر اطمینان سے اس کو لےکر چل دیتا ہے۔ اب حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ ایک عجیب عبرت کی بات بیان فرماتے